لاپتہ افراد کا مسئلہ اہم ہے جسے آئینی اور قانونی طور پر حل کرنا ضروری ہے
یہ بلوچستان سمیت ملک کے دیگر حصوں کا بھی مسئلہ ہے ، لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی جانب سے متعدد بار احتجاج کیا گیا ، دھرنے دیئے گئے اور مظاہرے کئے گئے اور وہ عدالتوں میں بھی گئے مگر مسئلہ اب تک اپنی جگہ برقرار ہے۔
مختلف حکومتوں کے ادوار میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر کمیشن بھی بنائے گئے جس میں حکومتی اراکین سمیت اپوزیشن ارکان بھی شامل رہے لیکن نتائج کچھ بھی برآمد نہیں ہوئے۔ لہذا لاپتہ افراد کی حقائق پر مبنی مکمل تفصیلات اکٹھی کی جائیں، حکومت اور سیکیورٹی ادارے اپنی اپنی سطح پر بھی معلومات اکٹھی کریں
تاکہ یہ ابہام ختم ہوجائے کہ کتنے لوگ جبری طور پر گمشدہ ہیں ۔ دوسری جانب لاپتا افراد کمیشن نے عدالتی حکم پر تمام تفصیلات اٹارنی جنرل کو جمع کرادیں۔لاپتا افراد کمیشن کی رپورٹ کے مطابق لاپتا افراد کے سب سے زیادہ 3485 کیسزکے پی سے رپورٹ ہوئے،کے پی سے شہریوں کے لاپتا ہونے کی وجہ شرپسندی اور ڈرون حملوں میں ہلاکتیں ہیں جبکہ بلوچستان سے 2752 شہریوں کی جبری گمشدگی کے کیسز موصول ہوئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے
کہ جنگی حالت پرفیملی کوبتائے بغیربیرون ملک ہونا بھی جبری گمشدگی کیسزکی وجہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق لاپتا افراد کوپیش کرنے کیلئے744 پروڈکشن آرڈرجاری کیے گئے جن میں سے صرف52 پر عمل ہوا، کمیشن کے جاری کردہ 692 پروڈکشن آرڈرز پر متعلقہ حکام نے عمل نہیں کیا، پروڈکشن آرڈرزپر نظرثانی کیلئے پولیس اور حساس اداروں نے 182 درخواستیں دیں جب کہ عملدرآمد نہ ہونے والے پروڈکشن آرڈرز میں سے 503 کے پی سے ہیں۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ
مارچ 2011 سے دسمبر 2023 تک 4413 لاپتا افراد گھروں کو واپس پہنچے، لاپتا ہونے والے 994 افراد مختلف حراستی مراکز میں قید ہیں اور لاپتا 644 افراد ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔رپورٹ کے مطابق مارچ 2011 سے دسمبر 2023 تک 261 لاپتا افراد کی لاشیں ملیں
،کمیشن نے1477 کیسزکو جبری گمشدگی قرار نہ دیتے ہوئے خارج کردیا، خارج کیے جانے والے کیسز میں اغواء برائے تاوان، ذاتی عناد یا ازخود روپوش ہونے کے تھے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کمیشن میں پنجاب کے 260، سندھ کے 163،کے پی کے 1336کیسز، بلوچستان کے 468، اسلام آباد کے 55 اور آزاد کشمیرکے 15 کیسز زیرالتوا ہیں۔رپورٹ کے مطابق لاپتا افراد کمیشن میں مجموعی طورپر 35 افسران اور ملازمین تعینات ہیں
،کمیشن کے افسران اورملازمین کی ماہانہ تنخواہیں 15 لاکھ سے زائد ہیں، کمیشن کے سربراہ جاویداقبال 6 لاکھ74ہزار، ممبر ضیاء پرویز 8 لاکھ29 ہزار جب کہ کمیشن ارکان امان اللہ خان 11 لاکھ 39ہزار اور شریف ورک 2 لاکھ 63 ہزارماہانہ لیتے ہیں۔
بہرحال اب اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ مستقل بنیادوں پر دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ اپنے حل کی جانب بڑھ سکے۔ لاپتہ افراد کامعاملہ بلوچستان میں زیادہ سنگین ہے جس پر اب بھی احتجاج جاری ہے ، جن کی تسلی اور اطمینان کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے ضروری ہیں۔ کمیشن میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی جانب سے بھی نامزد لوگوں کو مشاورت میں شامل کیاجائے تاکہ مکمل تسلی کے ساتھ یہ کام آگے بڑھ سکے۔
کمیشن کی رپورٹس تو آتی رہیں گی مگر دوسرے فریق کی جانب سے اسے تسلیم نہیں کیاجاتا ، اس طرح پھر سے احتجاج کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ماحول کو سازگار بنانے کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے تاکہ معاملہ احتجاج اور دھرنوں تک نہ پہنچ جائے۔ امید ہے کہ اس کیس میں اعلیٰ عدلیہ بھی اپنا کردار ادا کرے گی تاکہ یہ دیرینہ مسئلہ حل ہوسکے۔