|

وقتِ اشاعت :   January 11 – 2024

سپریم جوڈیشل کونسل نے سابق جج جسٹس (ر) مظاہر نقوی کو نوٹس جاری کر دیا ۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے مستعفی جج مظاہر نقوی کو آگاہی کا نوٹس جاری کیا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے مستعفی جج مظاہرنقوی کو ایک اور موقع دیا ہے، کونسل کا کہنا ہے کہ مظاہر نقوی چاہیں تو کونسل میں آج پیش ہوکر اپنا مؤقف دے سکتے ہیں۔کونسل کا کہنا ہے کہ مظاہر نقوی کے وکلاء نے وقت مانگا تو شکایت گزاروں کو سنا جائے گا۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ آج جمعے کو بھی کونسل کی کارروائی جاری رہے گی، سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی آج دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کی گئی ہے۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مظاہر نقوی نے گزشتہ روز عہدے سے استعفیٰ دیا تھا

جسے صدر مملکت نے منظور کرلیا ہے۔جسٹس (ر) مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس زیر سماعت ہے جس میں ان پر اثاثوں سے متعلق الزامات تھے جبکہ ان کی ایک مبینہ آڈیو بھی سامنے آئی تھی۔دوسری جانب سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس اعجاز الاحسن سپریم جوڈیشل کونسل سے الگ ہوگئے

جس کے بعد جسٹس منصور کو کونسل میں شامل کرلیا گیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جسٹس مظاہر نقوی کا استعفیٰ پڑھ کر سنایا۔چیئرمین جوڈیشل کونسل جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ کیا

جسٹس مظاہر نقوی صاحب کے وکیل خواجہ حارث یا ان کے جونیئر موجود ہیں؟ تاہم جسٹس مظاہر نقوی کی جانب سے کوئی کونسل میں پیش نہیں ہوا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ استعفیٰ آئین کی جس شق کے تحت دیا گیا وہ پڑھ دیں،

اٹارنی جنرل نے آرٹیکل 179 پڑھ کر سنایا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاونت درکار ہے کہ اب ریفرنس پر کارروائی آگے چلے گی یا نہیں۔چیئرمین جوڈیشل کونسل جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ جج کا استعفیٰ آخری مرحلے پر دوسرے شوکاز نوٹس کے بعد آیا، جج کے استعفے کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں،

پہلی صورت یہ کہ جج کے خلاف شکایات جھوٹی تھیں، پریشر میں آکر استعفیٰ دیا، دوسری صورت میں جج کے خلاف الزامات درست تھے،

وہ سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے، جج کی برطرفی کا سوال اب غیر متعلقہ ہوچکا ہے، ابھی تک کونسل نے صدر مملکت کو صرف رپورٹ بھیجی تھی، اگر الزامات ثابت ہوجاتے تو کونسل صدر مملکت کو جج کی برطرفی کے لیے لکھتی، اس صورتحال پر اٹارنی جنرل کی کیا رائے ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ کونسل نے اب کوئی نہ کوئی فائنڈنگ تو دینی ہے، کوئی جج سپریم کورٹ کی ساکھ تباہ کرکے استعفیٰ دے جائے تو کیا ہمیں خطرہ نہیں ہوگا؟ اپنی تباہ ساکھ کی سرجری کیسے کریں گے؟ کیا آئین کی دستاویز صرف ججز یا بیوروکریسی کے لیے ہے؟

آئین پاکستان عوام کے لیے ہے۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عوامی اعتماد کا شفافیت سے براہ راست تعلق ہے، کونسل کے سامنے سوال یہ ہے کہ جج کے استعفے کی کارروائی پر اثر کیا ہوگا، جج ہٹانے کاطریقہ کار رولز آف پروسیجر 2005 میں درج ہے، سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے جون 2023 میں فیصلہ دیا کہ

جج ریٹائر ہوجائے تو اس کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی، کیس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف شکایتی معلومات سپریم جوڈیشل کونسل کوبھیجی گئیں، کونسل میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے شکایت پر کارروائی نہیں کی،

ثاقب نثار کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر آئینی درخواست2020 ء میں دائر ہوئی اور فیصلہ 2023 میں ہوا۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ثاقب نثار کے معاملے میں تو کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی جب کہ اب ہوچکی، اس کا مطلب یہ نہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل رائے نہیں دے سکتی، کونسل میں سے جج کا کوئی دوست کارروائی کے آخری دن بتادے کہ

برطرف کرنے لگے ہیں اور وہ استعفیٰ دے جائے تو کیا ہوگا؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کارروائی کے دوران جج کا استعفیٰ دے جانا اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جو فیصلہ جون 2023 میں آیا وہ دو رکنی بینچ کا تھا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آنے کے بعد آئینی معاملات پر یہ بینچ فیصلہ نہیں دے سکتا تھا۔سپریم جوڈیشل کونسل نے مستعفی جج مظاہر نقوی کو آگاہی کا نوٹس جاری کردیا جس میں کہا گیا کہ مظاہر نقوی چاہیں

تو کونسل میں کل پیش ہوکر اپنا مؤقف دے سکتے ہیں۔سابق جج مظاہرنقوی بہرحال اپنے کیسز کا سامنا کرنانہیں چاہتے استعفیٰ دینے سے یہی واضح ہوتا ہے ۔اس سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اوپر لگے الزامات کا انہی کے بنچ کے سامنے پیش ہوکر سامنا کیا تھا

اور وہ سرخرو ہوگئے تھے۔ مظاہر نقوی کو خود کو تاریخ میں سچا ثابت کرنے کیلئے الزامات کا سامنا کرنا ہوگا وگرنہ تاریخ بے رحم ہے اور وہ تعاقب کرتی رہے گی ۔سابق جج مظاہر نقوی کیلئے یہ موقع موجود ہے کہ وہ اپنے الزامات کا سامناکرے تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں۔