|

وقتِ اشاعت :   January 11 – 2024

بانی پی ٹی آئی اور اس کے رہنماء اس زعم میں مبتلا ہیں کہ

ان کی جماعت ملک کی مقبول ترین جماعت ہے اور عوام کی بڑی تعداد پی ٹی آئی کو الیکشن میں ووٹ ڈالے گی اور وہ کامیاب ہوکر حکومت بھی بنائے گی مگر زمینی حقائق کچھ اور ہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے بانی ممبران نے اپنی جماعت سے راہیں جدا کرتے ہوئے نئی جماعتیں بنائیں، چندشخصیات نے دیگر سیاسی جماعتوں میںشمولیت اختیار کرلی ہے۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والی تمام شخصیات نے ایک ہی بات دہرائی ہے کہ

بانی پی ٹی آئی اپنی جماعت کو ایک آمر کے طور پر چلاتے رہے ہیں کسی کو مشاورت میںشامل نہیں کرتے تھے ،حکومت سے لے کر ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک تک اور 9مئی کے واقعات سب بانی پی ٹی آئی کی مرضی ومنشاء سے ہوئے ہیں ۔ بہرحال یہ پی ٹی آئی کے اندرونی معاملات ہیں

وہ کس طرح سے اپنی جماعت کولے کر چلتے ہیں اس کا نقصان اور فائدہ اسی کو اٹھاناپڑتا ہے اور اب بانی پی ٹی آئی اپنے سیاسی فیصلوں کی سزا بھی بھگت رہے ہیں

جبکہ اس کے ساتھ مبینہ کرپشن کے کیسز بھی ہیں جن کی وجہ سے وہ جیل میں بند ہیں،سائفر بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ اب پی ٹی آئی کو بلے کا نشان مل گیا تو کوئی بڑا طوفان نہیں آئے گا۔ پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں جو بھی وعدے کئے انہیں پورانہیں کیا جو ریکارڈ پر ہے

اور جس طرح سے پی ٹی آئی کو حکومت بناکر پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دی گئی وہ حقائق بھی سب کے سامنے ہیں، بیساکھی کے سہارے جو جماعت حکومت میں آئے اس کے روٹس عوام میں نہیں ہوتے ۔ جب بانی پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو بتایا کہ اس کے خلاف بہت بڑی سازش کی گئی اور اس سازش کو بھی بہت سارے کرداروں کے گرد گھماتے رہے اوراب تک موصوف اس معاملے پر اتنے یوٹرن لے چکے ہیں کہ سر چکراجائے۔

بہرحال پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا بحال کر دیا۔واضح رہے کہ 22 دسمبر 2023 کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے انتخابی نشان بلے سے محروم کر دیا تھا، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائرکی تھی۔جسٹس کامران حیات نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر 26 دسمبرکو حکم امتناع جاری کیا تھا،

پشاور ہائیکورٹ نے حکم امتناع میں پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا بحال کردیا تھا اور چھٹیوں کے بعد 9 جنوری کو ڈویژن بینچ کو کیس سننے کا حکم دیا تھا۔الیکشن کمیشن نے 30 دسمبر کو حکم امتناع کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائرکی تھی، 3 جنوری کو جسٹس اعجاز خان پر مشتمل سنگل بینج نے حکم امتناع کو ختم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کر دیا تھا جس کے خلاف پاکستان تحریک انصاف نے دوبارہ اپیل دائر کی تھی۔

بہرحال پی ٹی آئی کو اب میدان میں آکر مقابلہ کرنا ہے عوام کے درمیان جانا ہے

پی ٹی آئی کے اس وقت بیشتر امیدواران اور ذمہ داران وکلاء برادری سے تعلق رکھتے ہیں پارٹی بنانے والے تو راستے جدا کرچکے ہیں اب الیکشن کے دوران کونسا بیانیہ لے کر عوام کے پاس جائینگے یہی کہ فلاں چور ہے، فلاں ڈاکو ہے، پی ٹی آئی حکومت کو سازش کے تحت گرایا گیا، پی ٹی آئی صرف الزامات کی سیاست کرتی آئی ہے، اپنی کارکردگی اب تک عوام کو نہیں بتاسکی کہ اپنے دور میں انہوں نے ایسا کونساکارنامہ سرانجام دیا

جس کی بنیاد پر انہیں ووٹ دیاجائے۔ توشہ خانہ کیس، پنجاب میں مبینہ کرپشن سمیت ترقیاتی منصوبوں میں خورد برد کے بڑے کارنامے پی ٹی آئی کے کھاتے میں شامل ہیں۔ بلے کے نشان سے کچھ فرق نہیں پڑے گا الیکشن میں شکست کے بعد بھی پی ٹی آئی اپنا منفی پروپیگنڈہ جاری رکھے گا کہ ہمیں ہرایاگیا شکست کو تسلیم نہیں کرینگے ۔