|

وقتِ اشاعت :   January 18 – 2024

پاک ایران کشیدگی خطے کے لیے بہت خطرناک صورت اختیارکرجائے گی۔

سب سے پہلے ایران نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان کے ضلع پنجگور میں میزائل اور ڈرون حملے کیا جس میں جانی نقصانات ہوئے۔ یہ کوئی جواز نہیں کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی کی بنیاد پر ایران نے حملہ کیا،

ایران پاکستان کاپڑوسی ملک ہے اور دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات بھی ہیں۔پاکستان کے علم میں یہ بات لائی جاتی اور اس حوالے سے تمام تر معلومات فراہم کی جاتیں نہ کہ براہ راست حملہ کیا جائے جو انتہائی غیرمناسب اور غیرذمہ دارانہ عمل ہے جس پر پاکستان کی جانب سے بھرپور جواب دینا تو لازمی بنتا تھا کیونکہ کوئی بھی ملک اپنی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا اور یہ حق پاکستان کو بھی حاصل ہے کہ وہ اپنی سلامتی کی دفاع میں بھرپور جواب دے۔

پاکستان نے ایرانی حملے کے خلاف سفارتی سطح پر سخت احتجاج ریکارڈ بھی کرایا مگر ایران کی جانب سے کوئی مثبت جواب تک نہیں آیا۔ کسی بھی ریاست کے اندر مداخلت عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے اگرایران کو دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع تھی تو پاکستان کو بتایا جاتا

مگر یہ گوارہ تک نہیں کیا گیا اورفوری حملہ کیا گیا جس میں معصوم لوگ شہیدہوئے۔ پاکستان کے اندر گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں، اس کے لیے بھارت اور افغانستان کی سرزمین استعمال ہوتی آرہی ہے،اب ایران نے ایک نیا محاذ کھول کر خطے میں حالات کو مزید خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔

پاکستان نے ہر وقت ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات برقرار رکھنے کے لیے پہل کی۔ بہرحال پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایران کے علاقے سیستان میں کیے جانے والے حملے پر وضاحت دی ہے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ 18 جنوری کی صبح پاکستان نے ایران میں اسٹرائکس کیں، ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کیں جو پاکستان میں حالیہ حملوں میں ملوث تھے، پاکستان نے حملہ آور ڈرونز، راکٹس اور دیگر ہتھیاروں سے کارروائیاں کیں۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ سیستان میں کالعدم تنظیم بی ایل اے اور بی ایل ایف کی پناہ گاہوں کو کامیابی سے نشانہ بنای

ا، یہ آپریشن انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیا گیا اور اس آپریشن کا نام مرگ بر سرمچار رکھا گیا تھا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ نشانہ بنائے گئے ٹھکانے بدنام زمانہ دہشت گرد استعمال کر رہے تھے، پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردی کی کارروائیوں کے خلاف پاکستانی شہریوں کی حفاظت کویقینی بنانے کے لیے مستقل تیار ہے۔شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ہمارا عزم ہے پاکستان کی علاقائی حدود کی خودمختاری کو ہر صورت میں محفوظ بنائیں گے،

یہ پناہ گاہیں بدنام زمانہ دہشت گرد دوستہ عرف چیئرمین، بجرعرف سوغت، ساحل عرف شفق، اصغرعرف بشام اور وزیر عرف وزی سیت بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ کسی بھی قسم کے مس ایڈونچر کے بارے میں ہمارا عزم غیر متزلزل ہے، عوام کی مدد سے پاکستان کے تمام دشمنوں کو ناکام بنانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں اور آگے بڑھنے کیلئے 2 پڑوسی برادر ممالک سے بات چیت اور تعاون کو فروغ دینا چاہتے ہیں، ہمسایہ برادر ممالک کے درمیان دوطرفہ مسائل حل کرنے کے لیے بات چیت اور تعاون کو سمجھداری سمجھا جاتا ہے۔

قبل ازیں ترجمان دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ دہشت گردوں کی موجودگی اور سرگرمیوں کے ٹھوس شواہد والے ڈوزیئرز بھی ایران کے ساتھ شیئر کیے گئے تھے، انتہائی پیچیدہ کامیاب آپریشن پاکستانی افواج کی پیشہ ورانہ مہارت کامنہ بولتا ثبوت ہے، پاکستان اپنے عوام کے تحفظ اور سلامتی کے لیے تمام ضروری اقدامات کرتا رہے گا۔دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا مکمل احترام کرتا ہے،

کارروائی کا واحد مقصد پاکستان کی اپنی سلامتی اور قومی مفاد کا حصول تھا، پاکستان کی سلامتی اور قومی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران برادر ملک ہے اورپاکستانی عوام ایرانی عوام کے لیے عزت اور محبت رکھتے ہیں،

ہمیشہ دہشت گردی سمیت مشترکہ چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بات چیت اور تعاون پر زور دیا، آئندہ بھی مشترکہ حل تلاش کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے، ہم کسی بھی ملک کے ساتھ مخاصمت نہیں چاہتے۔ایران نے 16 جنوری کی رات بلوچستان کے علاقے پنجگور کے ایک گاؤں میں میزائل اور ڈرون حملہ کر کے 2 بچیوں کو شہید اور 3 کو زخمی کر دیا تھا۔پاکستان نے بلوچستان کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے

اسے پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی اور دو طرفہ تعلقات کے منافی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس حملے کی تمام تر ذمہ داری ایران پر عائد ہوتی ہے۔

پاکستان نے بلوچستان پر حملے کے جواب میں ایران میں تعینات سفیر مدثر ٹیپو کو وطن واپس بلا لیا تھا جبکہ ایرانی سفیر کو بھی ملک بدر کر دیا تھا۔ بہرحال موجودہ حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ ایران اپنی روش پر نظرثانی کرتے ہوئے ایک اچھے پڑوسی ملک ہونے کا ثبوت دے۔

پاکستان کی جانب سے اب بھی یہی کوشش ہے کہ ایران کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رہیں اورمل کردہشت گردی کا خاتمہ کیاجائے، ساتھ ہی سفارتی اور تجارتی تعلقات کو بہتر بنایاجائے مگر قومی سلامتی پر سمجھوتہ کسی صورت نہیں کیاجاسکتا۔