بلوچستان زرعی خطہ ہے جہاں بیشتر لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے۔ پانی بحران اور زراعت پر سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان کی بیشتر زمین بنجرپڑی ہے
جبکہ گرین بیلٹ بھی تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔ گزشتہ برس سیلاب کے دوران سب سے زیادہ نقصان زراعت کو پہنچا جس سے زمینداروںاور کسانوں کا دیوالیہ ہوگیا، وہ معاشی طور پر تباہ ہوگئے مگر افسوس ان کے لیے وفاقی سطح پر اس وقت کی حکومت کی جانب سے کوئی بھی بڑا پیکج نہیں دیا گیا
،اب تک زمیندار اس سیلاب کے نقصانات بھگت رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم میاںمحمد شہباز شریف نے سیلاب کے دوران متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، اعلانات بھی کئے مگر بلوچستان کے زمینداروں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور نہ ہی کوئی بڑا پیکج بلوچستان کی زمینداروں کو دیا گیا
جس سے وہ اپنی تباہ حال زمین کو دوبارہ آباد کرسکیں اور کاشت کاری کے قابل بنائیں ۔المیہ تو یہ ہے کہ آج بھی بلوچستان کے زمیندار بجلی لوڈشیڈنگ کے خلاف سراپااحتجاج دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ٹیوب ویلوں کی پانی سے زمین کو کاشت کاری کے قابل بنایاجاتا ہے
لیکن بجلی لوڈشیڈنگ کے باعث انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے جس سے انہیں مالی طورپر نقصانات اٹھانے پڑرہے ہیں جس پر سنجیدگی کے ساتھ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بہرحال نگراں وزیر اعلیٰ بلوچستان میر علی مردان خان ڈومکی کی زیر صدارت کچھی کینال فیز ٹو پر پیش رفت اور سیلاب سے متاثرہ حصوں کی تعمیر و مرمت اور بحالی سے متعلق اعلیٰ سطحی جائزہ اجلاس منعقدہوا،
اجلاس میں چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات و منصوبہ بندی عبدالصبور کاکڑسمیت دیگر حکام نے شرکت کی۔ نگراںوزیر اعلیٰ بلوچستان میر علی مردان خان ڈومکی نے کچھی کینال فیز ٹو اور سیلاب سے متاثرہ حصوں کی تعمیر و مرمت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات بلوچستان کو ہدایت کی کہ اس ضمن میں پلاننگ کمیشن سے رابطہ کرکے
دونوں منصوبوں کی پیش کردہ پی سی ون کی جلد ازجلد منظوری کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔ نگراں وزیر اعلیٰ بلوچستان میر علی مردان ڈومکی نے کہا کہ
کچھی کینال فیز ٹو پر عملی پیش رفت کے ساتھ ساتھ سیلاب سے متاثرہ حصوں کی تعمیر و مرمت کا کام جلد از جلد شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کمانڈ ایریا کے متاثرہ علاقوں میں زرعی پیداوار دوبارہ ممکن ہو اور زراعت کے شعبے سے وابستہ خاندان معاشی بدحالی اور کسمپرسی سے بچ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ایکنک اپنے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے واپڈا کو کچھی کینال کی مرمت کے لیے احکامات جاری کرے ،
کینال کی مرمت کرکے جولائی 2022 کی پوزیشن پر بحال کیا جانا ضروری ہے جبکہ مستقبل میں ممکنہ سیلابی صورتحال کو مدنظر رکھ کر وسیع المدتی منصوبہ بندی بھی کی جانی چاہیے تاکہ کچھی کینال کی مرمت کے بھاری اخراجات بارہا برداشت نہ کرنے پڑیں ۔سال 2022 کے سیلاب سے کچھی کینال میں پڑنے والے شگافوں کے باعث بلوچستان کو پانی کی ترسیل معطل ہوچکی ہے
جس کی وجہ سے کچھی کینال کے2017 میں مکمل کردہ کمانڈ ایریا کی اراضی پر کاشت متاثر ہوئی ہے ۔کینال کے سیلاب سے متاثرہ حصوں کی مرمت کے لیے بارہ ارب روپے کا نظر ثانی شدہ پی سی پلاننگ کمیشن اور ایکنک کو بھیجا گیا ہے کینال کی فوری فعالیت و بحالی کے لئے چھ ارب روپے درکار ہیں جبکہ فیز ٹو پر پیش رفت کے لئے بھی پی سی ون کے مطابق فنڈز کا اجرا ضروری ہے
تاکہ بلوچستان کے ان ہم منصوبوں پر بلا تاخیر کام شروع کیا جاسکے ۔ بہرحال نگراں وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے کچھی کینال پر ہنگامی بنیادوں پرکام کرنے کی ہدایات جاری کردی گئیں ہیں مگر بلوچستان میں زراعت کے شعبہ کو تباہی سے بچانے کیلئے مستقل پلاننگ کی ضرورت ہے جو بلوچستان کی نئی منتخب حکومت کی ترجیحات میںشامل ہونی چاہئے کیونکہ بلوچستان میں ویسے بھی روزگاراور ذریعہ معاش کے مواقع بہت ہی محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں لہذا ان کو سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے ۔