|

وقتِ اشاعت :   January 25 – 2024

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف اسلام آباد میں جاری اپنا دھرنا ختم کردیا۔

یہ اعلان نیشنل پریس کلب (این پی سی) کی جانب سے اسلام آباد پولیس کو ایک خط لکھنے کے بعد سامنے آیا جس میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کیمپ کو ہٹانے کی درخواست کی گئی تھی۔ این پی سی کی درخواست بعد میں صحافیوں سمیت دیگر حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کے بعد واپس لے لی گئی۔مظاہرین جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے این پی سی کے سامنے دھرنا دیئے بیٹھے تھے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا یہ کیمپ گزشتہ سال 22 دسمبر کو قائم کیا گیا تھا اور سخت سردی کے باوجود مظاہرین یہاں موجود رہے۔ دھرنے کے منتظمین نے اسلام آباد پولیس پر الزام لگایا تھا کہ ان کے حامیوں کو ہراساں اور ان کی پروفائلنگ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آر) بھی درج کی گئیں۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دھرنے کی قیادت کرنے والی ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھاکہ یہاں سے جو نفرت کا پیغام دیا گیا

، وہ پیغام ہم بلوچستان لے کر جائیں گے، ہم یہاں سے نفرت کا پیغام لے کر جا رہے ہیں، ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب کچھ یاد رکھا جائے گا۔انہوں نے پریس کلب اسلام آباد کے نوٹیفکیشن پرکہا کہ پوری صحافت پر داغ ہے، اسلام آباد میں جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا، وہ پورے بلوچستان کو بتائیں گے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس کو لکھے گئے خط میں این پی سی نے درخواست کی تھی کہ مظاہرین کو کسی دوسرے مقام پر منتقل کرنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا جائے

تاکہ پریس کلب اور تمام رہائشیوں اور تاجر برادری کے لیے مشکلات کو کم کیا جا سکے۔ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ

ہم ریاست کے خلاف نہیں، ریاست ہمارے خلاف ہے، ہم تو اپنے مسائل کے حل کے لیے ریاست سے مطالبہ کر رہے ہیں، بلوچ یکجہتی کمیٹی نے 61 دن تک پُرامن احتجاج کیا۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماء نے کہا کہ افسوس ہے کہ الیکشن مہم چل رہی ہے لیکن کسی جماعت کی جانب سے لاپتا افراد سے متعلق کوئی بات نہیں کی جا رہی۔

یہ شکوہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کاجائز ہے کہ ان کے مطالبات پر توجہ نہیں دی گئی چونکہ یہ بلوچستان کا اہم ترین مسئلہ ہے جوحل طلب ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ گزارشات اور مطالبات کئے جارہے ہیں کہ اگر لاپتہ افراد کسی جرم میںملوث ہیں

تو انہیں عدالتوں میں پیش کیاجائے اور ان پر کیسز چلائے جائیںنیز انہیںمنظر عام پر لایا جائے تاکہ ان کے اہل خانہ کو تسلی مل سکے۔ ریاست اپنی تمام تر مشینری کو بروئے کار لائے اور لاپتہ افراد کے متعلق موجود ابہام کو خود ہی دور کرے ۔

بلوچستان میں شورش کی ایک بڑی وجہ لاپتہ افراد کا مسئلہ اور طرز حکمرانی بھی ہے جسے کسی صورت نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ،جو روش بلوچستان کے ساتھ اپنائی گئی اس کی نظیر نہیں ملتی۔ بلوچستان کے لوگوں کا مطالبہ صرف اپنے حقوق کا ہے جو آئین انہیں دیتا ہے۔

طاقت کے استعمال کا حامی کوئی بھی نہیں ہے کیونکہ اس سے بگاڑ پیداہوتا ہے معاملہ سلجھتا نہیں بلکہ مزید الجھ جاتا ہے اور یہی بلوچستان کے ساتھ ہوتا رہا ہے ۔ بلوچستان کے تمام مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری ریاست کی ہے مگر افسوس کہ ریاست بلوچستان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتی۔ اس کے علاوہ وفاقی سطح پرجو بھی جمہوری حکومت بنی اس نے بلوچستان کے زخموں پرمرہم رکھنے کے دعوے تو کئے مگر عملاََ کچھ نہیں کیاجس کی وجہ سے آج تک بلوچستان کے لوگ سراپااحتجاج ہیں

خاص کر لاپتہ افراد کے اہل خانہ عرصہ دراز سے بلوچستان سمیت اسلام آباد میں اپنا احتجاج ریکارڈ کراچکے ہیں مگر ان کی شنوائی نہیں ہوسکی ۔حالیہ دھرنا اس کی مثال ہے مگر اس مسئلہ کو حل کرنا تو پڑے گا ،کسی نتیجہ پر پہنچنا توہوگا ۔اب دیکھتے ہیں کہ منتخب کوئی بھی حکومت آئے وہ بلوچستان کے لاپتہ افراد سمیت دیگر مسائل کو کتنی ترجیح دے گی؟