|

وقتِ اشاعت :   January 26 – 2024

ملک میں سیاسی انجینئرنگ اتنی ہوئی ہے کہ پارلیمانی نظام سے عوام کا اعتبار اٹھ چکا ہے ۔

اسی طرح عدلیہ کے ماضی کے بہت سارے فیصلوں کے باعث عوام میں مایوسی پھیل چکی ہے ۔ جمہوری ممالک میں ادارے مقدس ہوتے ہیں اور آئین کے اندر رہتے ہوئے انہیںجواختیارات دیئے جاتے ہیں انہی کے تحت وہ اپنے فرائض سرانجام دیں لیکن اگر آئین وقانون سے تجاوز کرکے ادارے پسند وناپسند کی بنیاد پر کام کرتے ہیں

تو اس کا سب سے بڑا نقصان جمہوریت کا ہوتا ہے اور اس کا خمیازہ عوام کو بحرانات کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے۔ افسوس کہ آج ستر سال سے زائدکا عرصہ گزرچکا ہے سب ہی تذبذب کا شکار ہیں کہ مستقبل میں ملک کس سمت جائے گا، عام انتخابات کے حوالے سے بھی الگ الگ رائے پائی جاتی ہے کہ شفاف انتخابات ہونگے یا نہیں، کسی ایک جماعت کو لاڈلے کے طور پر لایاجائے گا یا پھر تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کو اکٹھی کرکے حکومت بنائی جائے گی یعنی قومی حکومت کی تشکیل ہوگی۔

صورتحال کسی طرح واضح نہیں ہے کیونکہ الیکشن مہم اس طرح سے ملک بھر میں نہیں چل رہی جس طرح ماضی میں عام انتخابات کے دوران بہت زیادہ گہما گہمی دکھائی دیتی تھی ۔اب تو سیاسی جماعتوں کے اندر شدید اختلافات ٹکٹوں کی تقسیم میں پایاجاتا ہے

گویا سیاستدانوں کا مقصد ٹکٹ کا حصول ہے اور اس کے لیے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں کہ وہ الیکشن جیت جائیں اس کے لیے رقم بھی بہت زیادہ خرچ کی جاتی ہے۔ ملکی سیاست سے اندازہ لگائیں کہ اب تک ملک نے کتنی ترقی کی ہے اور ہمارے یہاں پارلیمان سمیت دیگر ادارے کتنے مضبوط ہیںاور جو احتساب کے لیے بنائے گئے ادارے ہیں

وہ کس طرح سے کام کررہے ہیں یہ سب کے سامنے ہے اس پر بات بھی ہوتی ہے بحث بھی کی جاتی ہے خامیوں کی نشاندہی بھی کی جاتی ہے مگر ماضی سے سبق سیکھنے کی بجائے اداروں کو سیاستدان اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔

اقتدار میں آکر عوام کا خادم بننے کی بجائے سیاسی انتقام کا آغاز ہوجاتا ہے ایک دوسرے کے خلاف کیسز بنائے جاتے ہیں اب الیکشن مہم کے دوران بھی تابڑ توڑ بیانات ایک دوسرے کے خلاف دیئے جارہے ہیں

الزامات کی بھر مار دکھائی دے رہی ہے حالانکہ جو الزامات سیاسی جماعتوں کے قائدین ایک دوسرے پر لگارہے ہیں وہ ماضی میں اتحادی رہ کر حکومت کرچکے ہیں۔ ملک میںموجودبحرانات کا ذمہ دارایک دوسرے کو ٹہراتے ہیں ،وہی روایتی سیاست جاری ہے کسی طرح کی تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی، اس کا اعتراف سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے میڈیا سے بات چیت کے دوران کی اور اسے سنجیدگی سے سننے کے ساتھ غور بھی کرنا چاہئے۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موجودہ الیکشن بے مقصد بن چکا ہے

جو ملک کو انتشار کے علاوہ کچھ نہیں دے گا۔نیب اور اینٹی کرپشن کے ادارے صرف الیکشن اور سیاست میں جوڑ توڑ کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا مجھ پر الزام ہے کہ دو سڑکوں کی تعمیر کے ٹھیکے من پسند افراد کو دئیے، محکمے سے پوچھا گیا تو جواب آیا کہ دونوں سڑکیں بنی ہی نہیں، نیب، اینٹی کرپشن کے ادارے ملک کے کرپٹ ترین ادارے بن چکے، ان کا احتساب کون کرے گا۔

بہرحال شاہد خاقان عباسی نے بہت ساری باتیں کی ہیں سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں اور اداروں کی خامیوں پر کھل کر بولے ہیںانہوں نے خود کو الیکشن کے عمل سے دور رکھا ہے اور ن لیگ کے ٹکٹ سے بھی الیکشن نہیں لڑرہے حالانکہ وہ ایک بڑی سیاسی شخصیت ہیں ۔ ایک ایسا ماحول بن چکا ہے کہ

سیاستدان اب خود کھل کر یہ بات کررہے ہیں کہ ہماری اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک بہتر سمت کی طرف نہیں بڑھ رہا ۔اب دیکھتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کس طرح بنے گی اور اس کی پالیسی کیا ہوگی ،یہ بڑا امتحان ہے کیونکہ ملک اس وقت سیاسی اور معاشی حوالے سے بہت سارے مسائل کا سامنا کررہا ہے اگر اب بھی بہتر فیصلے نہیں کیے گئے اور سیاسی رویوں میں تبدیلی نہیں لائی گئی تو ملک میں موجود بحرانات میں مزید اضافہ ہوگا ۔