|

وقتِ اشاعت :   January 28 – 2024

پاکستان سے پہلے بلوچ خطہ کے دیگر آزاد اقوام کے ساتھ انگریزوں کا رویہ یہی ہو اکرتا تھا جو آجکل ہے یعنی جھوٹی تسلی، مگر مچھ کے آنسو اور بے جان وعدے، البتہ یہ سب کچھ رعب و لالچ کے پردے میں ۔
پاکستان کی تاریخی زندگی میں بلوچستان کیساتھ یہی ایک رویہ جاری ہے البتہ اس میں دوسرے ملینیم کے آغاز میں اضافہ ہوا اور ایک اوبا شانہ طرز پر بلوچستان کے وسائل کی تقسیم و خیرات کا عمل شروع ہوا اور بلوچوں کے جائز اعتراض کا ناجائز اور غیر سیاسی انداز میں جواب دیا گیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ بلوچستان میں کسی کی بھی بات نہیں سنی جائے گی اور کسی بھی قسم کے احتجاج کو حقارت کے ساتھ نظر انداز کردیا جائے گا۔ جب ہلاکتوں کااور شہادتوں کا سلسلہ شروع ہوایہاں ایک اور وحشیانہقدم اٹھایا گیا اور وہ تھا جو انوں کو اٹھا کر غائب کرنے کا، بلا مقدمہ و عدالتی کارروائی لوگوں کو اٹھانا یا کچھ عرصہ بعد ان کی مسخ شدہ لاش کسی ویرانے سے برآمد ہونا یا پھر لاش نہ ملنا ۔بلوچوں کے جائز اور قانونی مطالبہ کو خون آلود اور آتش زدہ جواب نے حالات کو بھی سوختہ و برافروختہ کردیا ۔پہاڑوں پر مورچہ زن لوگ زمینی بادشاہوں کے ساتھ بقول عرف شہادت و ہلاکت کا کھیل کھیلتے رہے مگر بلوچوں میں پورے ایریا میں ایک تشویشناک مسئلہ ان کے پیاروں کی گمشدگی تھی ،انہیں دردرجا کر چیخنااور چلانا پڑا کہ ہمیں ہمارے گھروں کے چراغوں کے بارے میں حتمی بات بتادو اگر زندہ ہیں تو کہاں ہیں اور ان کے جرائم کیا ہیں اور اگر زندہ نہیں ہیں تو بھی ہمیں حتمی جواب دو تاکہ ہم ان کے بارے میں امید کی جنگ ہار کر صبر کریں۔
مسنگ پرسنز کی بازیابی کی تحریک میں ماما عبدالقدیر ، نصراللہ بلوچ، عبدالودود رئیسانی کی والدہ ماجدہ ، مرحومہ کریمہ، مہرنگ اورسمی اور دیگر لوگ گرمیوں میں کوئٹہ پریس کلب اور سردیوں میں کراچی پریس کلب کے مین گیٹ پر ڈیرہ ڈال کر سراپا انتظار ہو کر بیٹھ جاتے یہاں تک کہ ماما قدیر اور اس کے ہمسفروں کو کیا سوجھا کہ انہوںنے دو ہزار کلو میٹر پیدل سفر کرکے اس مسئلہ کو گھسیٹتے ہوئے اسلام آباد تک پہنچ گئے ۔ن کی درد بھری کہانی اور ہمت کا قصہ عالمی میڈیا کو متوجہ تو کر سکی لیکن اسلام آباد کے با اختیار مکین نے نہ کچھ دیکھا اور نہ سنا اور نہ ہی کچھ سمجھا ۔اسی تگ ود و میں عبدالودود رئیسانی کی والدہ ٹریفک حادثہ میں جاں بحق ہوگئی، کریمہ کینڈا میں پر اسراانداز میںقتل کردی گئیں۔یہ سلسلہ یہاںنہ رک سکا یہاں تک کے بالاچ سمیت تین اور لوگ مارے گئے جبکہ بالاچ عدالتی ضمانت پر پولیس کی تحویل میں تھا ۔اس سانحہ پر پہلے کافی دن تربت میں لاش کے ساتھ احتجاج کیا گیا اور آخر کار لاشوں کی تدفین کے بعد احتجاج کا اعلانیہ آغاز کیاگیا ۔تربت سے کوئٹہ تک کا سفر کیا گیا تاکہ صوبائی مرکز میں احتجاج کی صورت میں صوبائی حکومت کے ذریعے تسلسل کے ساتھ پیش آنے والا مسئلہ حل کیاجائے مگر یہاں کوئی سننے والا دستیاب نہ رہاتو مجبوراً چا کر و جیئندروحانی صاحبزادیاں بانٹری اور گل بی بی کی صورت و سیرت میں ماہ رنگ و دیگر نے مولانا صبغت اللہ و دیگر بھائیوں کی معیت میں کوئٹہ سے اسلام آباد کا سفر کیا ۔ عجیب بات یہ ہے کہ اسلام آباد کے قدرت اختیار کے مراکز میں تشریف فرما ارباب عقد و کشا تمام کے نام ایسی تہذیب سے وابستہ ہیں جہاں عورت کو بہت عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر بانڑی اور گل بی بی کا استقبال لاٹھی او ر تشدد سے کیا گیا۔ فوج کے سربراہ جو سید ہیں اور سید ہونے کے ناطے ایک تاریخی پس منظر کی بدولت قابل احترام ہیں انوارالحق کاکڑ غیور و شیر دل پٹھانوں کے تاریخ ساز نسل سے منسوب ہیں۔ جناب میر صادق سنجرانی، سنجرزئی فاتحین اور سر بلند رخشانی قبائل کے نام سے اپنا تعارف کراتے ہیں ۔اسی طرح قاضی فائز ایک خوشنام پختون قبیلہ سے منسوب ہونے کے ساتھ ایک خوش نام باپ کے بااثر صاحبزادے ہیں جنہوں نے عمرانی دور میں اچھی خاصی نام و شہرت بھی کمائے ،مگر حیرت کی بات ہے کہ ایک تحریک اور ایک دلخراش آواز جو امریکی کانگریس ، یورپی پارلیمان ، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی تحریکوں کو سنائی دی اور اس کا تذکرہ بھی ہوا مگر اسلام آباد کے مذکورہ مکینوں کا طرز عمل اور رد عمل ایسا ہے کہ لگتا ہے کہ تمام موصوف حضرات روبوٹ ہیں جو کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے متحرک احتجاجی قائدین مرد و حضرات مایوسی کا اعلان کرکے بوریا بستر لپیٹ کر اسلام آباد سے دل شکستہ اور نا امید لوٹ جاتے ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا رات گئی بات گئی، یا رات تو گئی مگر بات اب شروع ہوچکی ہے کیونکہ یہ مایوسی اسلام آباد کی مرکزیت کی پالیسی اور کاوشوں سے ہے اور مظلوم بلوچ نے جو سفر شروع کیا ہے وہ جاری رہے گا ۔یہ مایوسی مزید ہمت اور اپنے عزائم پر استوار ہونے کا سبب بنے گا۔