بلوچستان میں ایک بار پھر عام انتخابات میں کوئی بھی بڑی جماعت واضح اکثریت لینے میں کامیاب نہیں ہوسکی
بلکہ بعض حلقوں پر اپ سیٹ بھی ہوا ہے۔ بلوچستان میں مخلوط حکومت بنانے کے حوالے سے بہت زیادہ پاپڑ بیلنے پڑینگے کیونکہ آزاد امیدواروں کی تعداد بھی زیادہ ہے، فی الحال نتائج بہت زیادہ تاخیر کا شکار ہیں ایک بے یقینی کی صورتحال سے امیدوار اور ان کے ووٹرز دوچار ہیں۔ فارم45 کی وصولی میں بہت زیادہ دشوار ی بھی ہورہی ہے۔ پولنگ کے روز جب انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل رہی
تب سے سب پریشانی میں مبتلا ہوگئے جبکہ الیکشن نتائج کی تاخیر نے سب میں تشویش پیدا کردی ہے جس کے بعد بہت سارے سوالات اب سیاسی ومذہبی جماعتیں اٹھارہی ہیں کہ الیکشن کمیشن کا کام ہی انتخابات کرانا ہے اگر اس میں بھی ان کا نظام بہتر کام نہیں کرسکتا
تو اس ادارے کا ہونا بے معنی ہے۔ بہرحال سوالات اپنی جگہ موجود ہیں اب تک بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے مختلف حلقوں کے غیر سرکاری وغیر حتمی نتائج سامنے آچکے ہیں جس کے مطابق صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 41 کوئٹہ 4 سے آزاد امیدوار ولی محمد 9318 ووٹ لے کر کامیاب جبکہ آزاد امیدوار عبدالغفار خان کاکڑ 7270 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔پی بی 48 پشین2 سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سردار امجد خان ترین 15053 ووٹ لے کرکامیاب
جبکہ آزاد امیدوار سید شاہ نواز کرال 3466 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔پی بی 47 پشین 1 سے آزاد امیدوار اسفند یار خان کاکڑ 21714 ووٹ لے کر کامیاب جبکہ جے یو آئی ایف کے مولوی کمال الدین 18989 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
پی بی 3 قلعہ سیف اللہ سے آزاد امیدوار مولانا نور اللہ 21922 ووٹ لے کرکامیاب جبکہ جے یو آئی ایف کے مولانا عبدالواسع 18460 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔بلوچستان عوامی پارٹی کے نوابزادہ طارق مگسی 44ہزار 556 ووٹ لے کر کامیاب
جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے میر مرتضیٰ عباس 1244 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔پاکستان مسلم لیگ ن کے جام کمال خان 38562 ووٹ لے کر کامیاب جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے محمد حسن جاموٹ 18373 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے صادق سنجرانی 18802 ووٹ لے کر کامیاب جبکہ جے یو آئی ایف کے میر امان اللہ نوتزئی 17009 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔جماعت اسلامی پاکستان کے عبدالمجید 15248 ووٹ لیکر کامیاب جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کی راحت جمالی 14131 ووٹ لیکر دوسرے نمبرپر رہے۔
پی بی 39کوئٹہ 2 سے آزاد امیدوار بخت محمد 6618 ووٹ لیکرکامیاب جبکہ جے یو آئی ایف کے سیدعبدالواحد 5878 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے بلوچستان عوامی پارٹی کے شہزادہ احمد عمر احمد زئی 4638 ووٹ لیکر کامیاب جبکہ جے یو آئی ف کے سردار احمد خان شاہوانی 1752 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ پی بی 45 کوئٹہ 8 سے پاکستان پیپلزپارٹی کے علی مدد جتک 5671 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے جبکہ جے یو آئی ف کے میر محمد عثمان پرکانی 4346 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔پی بی 15 صحبت پورسے مسلم لیگ ن کے سلیم احمد کھوسہ 24619 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے جبکہ پیپلز پارٹی کے میر دوراں خان کھوسہ 15997 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔
پی بی 6 دکی کے نشست پر پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار مسعود علی خان لونی کامیاب ہو گئے ہیں۔ دکی سے صوبائی اسمبلی کی نشست پی بی 6 پر مسعود علی خان لونی نے 10 ہزار 375 ووٹ لیے۔ان کے مد مقابل آزاد امیدوار سردار محمد انور نصر 9 ہزار 799 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔
پی بی 9 کوہلو پر پیپلز پارٹی کے امیدوار میر نصیب اللہ خان نے 5 ہزار 842 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ آزاد امیدوار غازین خان مری 3 ہزار 325 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔پی بی 29 پنجگور1 پر بی این پی عوامی کے میر اسد اللہ بلوچ 7 ہزار 801 ووٹ لیکر کامیاب جبکہ نیشنل پارٹی کے محمد اسلم بلوچ 4 ہزار 211 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔پی بی 34 نوشکی پر جے یو آئی پی کے امیدوار غلام دستگیر 16 ہزار 771 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے محمد رحیم 15 ہزار 14 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔پی بی 35 سوراب کی نشست پر جمعیت علمائے اسلام ف کے امیدوار ظفر اللہ خان زہری 16 ہزار 579 ووٹ لیکر کامیاب جبکہ پیپلز پارٹی کے نعمت اللہ خان زہری 11 ہزار 113 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔
پی بی 40 کوئٹہ پر ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قادر علی 6 ہزار 268 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اختر خوروٹی 3 ہزار 940 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔دوسری جانب قومی اسمبلی کی نشستوں پر بھی کانٹے کا مقابلہ ہوا ہے مگر مکمل نتائج کے آنے تک یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کس جماعت نے میدان مار لیا ہے ۔ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی جانب سے یہ دعویٰ کیاجارہا ہے کہ بلوچستان سمیت دیگر صوبوں سے ان کی جماعت کے امیدوار جیت رہے ہیں مگر حتمی طور پر کچھ بھی واضح نہیں ہے۔
الیکشن 2024ء میں بڑے بڑے سیاستدان بھی شش وپنج میں مبتلا ہیں کہ حتمی نتیجہ کیا سامنے آئے کچھ پتہ نہیں کیونکہ پہلے ایک نتیجہ آتا ہے اس کے بعد پھر ہار جیت میں تبدیل ہوجاتی ہے، یہ الیکشن پر سوالیہ نشان ہے۔ گزارش ہے کہ جلد نتائج کا اعلان الیکشن کمیشن خود کرے تاکہ یہ بے چینی کی صورتحال ختم ہوسکے۔