ملک میں عام انتخابات جس طرح سے ہوئے ان پر بہت زیادہ سوالات اٹھ رہے ہیں ۔
اس کی ایک بڑی وجہ انتخابات میں نتائج کی تاخیر ہے اور یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی کہ بروقت انتخابات کے نتائج کااعلان کیا جاتا،دوردراز علاقوں کے نتائج میں تھوڑی بہت تاخیر ہوسکتی ہے مگر ملک کے بڑے شہروں، کراچی، لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ، پشاور سمیت دیگر شہروں میں نتائج 48گھنٹوں کے بعد بھی سامنے نہیں آئے
جس کی وجہ سے امیدوارشدیدتشویش میں مبتلا ہوئے اور ووٹر بھی رات بھر جاگ کر اپنے امیدواروں کے نتائج کا انتظار کرتے رہے ۔ایسی صورتحال میں سوالات تویقینا اٹھیں گی اوراس پر احتجاج بھی سیاسی ومذہبی جماعتیں کریں گی۔
اس وقت بلوچستان کی بیشتر قومی شاہراہوں پر قوم پرست جماعتوں کی جانب سے احتجاجی دھرنا دیاجارہا ہے
اور ان کے تحفظات یہی ہیں کہ انہیں مبینہ طور پر دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا ہے، ان کے مینڈیٹ کو چرایا گیا ہے۔ یہ کسی طورجمہوریت کے لیے بہتر نہیں ہے ایک بہترین ماحول میں انتخابات کرانا اور بروقت نتائج کے اعلان کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی تھی جس میں وہ بہت حد تک ناکام رہی۔ اب سیاسی ومذہبی جماعتیں سڑکوں پر نکل آئی ہیں مگر ایک طریقہ کار یہ بھی ہے کہ
قانونی حوالے سے عدالت سے رجوع کیاجائے بجائے سڑکوں پر احتجاجی دھرنا دے کر عوام کو مصیبت میں مبتلا کرنے کے ۔
بہرحال ملک میںمرکزی سیاست دلچسپ صورت اختیار کرتی جارہی ہے، مرکز اورصوبوں میں حکومت بنانے کے لیے ن لیگ اور پیپلزپارٹی متحرک ہوگئیں ہیں اورمشترکہ کوششوںمیںلگی ہوئی ہیںکہ وہ مخلوط حکومت بنائیں ۔اطلاعات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے اپنے حمایت یافتہ کامیاب امیدواروں سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی جانب سے رابطوں کے بعد استعفے اور حلف نامے مانگ لیے
۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 20 سے زائد ارکان سے رابطے کیے ہیں۔ان رابطوں کے بعد پی ٹی آئی رہنما گوہرخان نے بذریعہ عمیر نیازی ارکان سے استعفے اور حلف نامے مانگ لیے۔استعفے اور حلف نامے لینے کا مقصد آزاد ارکان کو وفاداریاں بدلنے سے روکنا ہے۔
دوسری جانب لاہور سے نومنتخب ایم این اے اور پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری لاہور وسیم قادر مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے۔واضح رہے کہ ملک میں عام انتخابات کے بعد مرکز میں حکومت بنانے کیلئے جوڑ توڑ جاری ہے اور آزاد امیدوار اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔
عام انتخابات 2024 کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 93 نشستیں لے کر سب سے آگے ہیں جب کہ مسلم لیگ ن 75 اور پیپلز پارٹی نے اب تک 54 نشستیں حاصل کی ہیں۔اس کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان 17، دیگر آزاد امیدوار 8، مسلم لیگ (ق) 3، جمعیت علمائے اسلام 4، استحکام پاکستان پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے 2، 2 نشستیں حاصل کیں جبکہ دیگر جماعتوں کے حصے میں ایک ایک نشستیں آئی ہیں ۔دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر گوہر کادعویٰ ہے کہ
ہمارے سارے امیدوار ساتھ کھڑے ہیں، انٹراپارٹی الیکشن کے بعد ہمارے سارے امیدوار آجائیں گے،پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے آپس میں اتحاد کرلیا ہے،ہم کسی ایک کے ساتھ بھی الائنس کرنے کے موڈ میں نہیں، بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ ہم بغیر کسی کے ساتھ ملے حکومت بناسکتے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنماء بیرسٹر گوہر کا دعویٰ اپنی جگہ مگر اطلاعات کے مطابق آزاد امیدواررابطے میں ہیں اور شمولیت بھی کررہے ہیں جب بلے کا نشان چھن گیا تھا، اسی روز ہی یہ خدشات موجود تھے کہ آزاد امیدوار کسی بھی جماعت کے ساتھ چلے جائینگے اور یہ سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ہر لمحہ سیاسی منظر نامہ بدلتا جارہا ہے، سرپرائز کون دے گا یہ چند لمحات کی دوری پر ہے جس کا سب کو انتظار ہے۔