|

وقتِ اشاعت :   February 16 – 2024


نوے کی دہائی میں آواران (کولواہ) سردار اختر جان مینگل کی پارٹی کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ ان کے سسر میر اسلم جان گچکی میر عبدالمجید بزنجو کے سخت سیاسی حریف ہوا کرتے تھے۔ ایک طرف کلہاڑی کے نعرے بلند ہوا کرتے تھے تو دوسری جانب ششک اور سردار مخالف بیانیہ تھا۔ 1990 کے معرکے کے تین اہم امیدوار میر عبدالمجید بزنجو کے حق میں 5893 ووٹ، میر اسلم گچکی کے حق میں 5557 ووٹ جبکہ ماسٹر محمد حسن کے حق میں 5066 ووٹ آئے۔ میر عبدالمجید بزنجو ششک اور سردار مخالف بیانیے کو بنیاد بنا کر صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب قرار پائے۔
1993 کی جنرل الیکشن میں ایک بار پھر میر اسلم گچکی میر عبدالمجید بزنجو کے مدمقابل کھڑے ہوئے۔ کہانی میر اسلم گچکی کے حق میں چلا جاتا اگر سردار محمد عارف محمد حسنی قتل کا واقعہ نہ ہوتا۔ واقعے کے بعد محمد حسنی اور گچکی فیملی کے مابین دوریوں کی لکیر کھنچ آئی ،میر اسلم گچکی کے ساتھ میر رستم جان محمد حسنی بطور امیدوار کھڑے ہوئے۔ ووٹ تقسیم ہوئے اور میر عبدالمجید بزنجو ایک بار پھر اقتدار کے ایوان میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
1997 کی الیکشن میں بی این پی جہاں بلوچستان بھر میں کئی نشستیں جیت کر حکومت سازی کی دوڑ میں شامل ہو گئی۔ آواران کا معرکہ اس بار میر اسلم گچکی کے ہاتھ آیا مگر میر اسلم جان گچکی کی زندگی کا آخری معرکہ ثابت ہوا 2002 میں انہیں مشکے میں قتل کردیا گیا۔ میر اسلم گچکی کے قتل کے بعد بی این پی آواران میں سیاسی طور یتیم ہوا۔ سیاسی میدان میں جو خلا پیدا ہوا اسے پر نہیں کیا گیا۔ اور نہ ہی بی این پی مینگل قائدین نے اس کے لیے سنجیدہ کوششیں کیں۔ 2002 کے جنرل الیکشن میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر بی این ایم نے میر خدابخش میروانی کو اپنا امیدوار کھڑا کیا جبکہ بی این پی کی طرف سے عبدالحمید بلوچ چنے گئے۔ دونوں اہم حریف مسلم لیگ ق کے امیدوار میر عبدالقدوس بزنجو کے مقابلے میں ہار گئے۔ 2008 کے جنرل الیکشن میں جہاں بی این پی نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔ وہیں میر اسلم گچکی کے صاحبزادے میر قمبر گچکی کو آزاد امیدوار کی حیثیت سے صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر کھڑا کیا گیا۔ میر قمبر گچکی میر عبدالقدوس بزنجو کے مقابلے میں کامیاب تو ہوئے مگر وہ علاقے کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ نہ ڈال سکے۔
2013 کے جنرل الیکشن میں پی بی 41 آواران کی نشست کے لیے بی این پی نے میر محمد ہاشم میروانی کو اپنا امیدوار نامزد کیا جنہیں فقط 6 ووٹ ملے۔ نیشنل پارٹی کے امیدوار میر علی حیدر محمد حسنی کو 95 جبکہ مدمقابل میر عبدالقدوس بزنجو 544 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔
2018 کے جنرل الیکشن میں بی این پی مینگل نے سردار اسلم میروانی کو پی بی 44 آواران کی سیٹ پر کھڑا تو کیا مگر در پر دہ اس کا ووٹ بنک بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار میر عبدالقدوس بزنجو کے حق میں چلا گیا۔ میر عبدالقدوس بزنجو مدمقابل حریف خیر جان بلوچ کی 5963 ووٹ کے مقابلے میں 8055 ووٹ لے کر ایک بار پھر ایوانِ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
پانچ سالہ ایوان اسمبلی 2018 ٹو 2023 میں جہاں وزارت اعلیٰ کا تاج جام کمال خان کے حصے میں آیا۔ سب نے بی این پی مینگل کے ثناء بلوچ کی گرجدار اور تیز طرار تقاریر کا بھرپور مزہ اٹھایا۔ پھر وہ وقت آیا جب جام کمال خان کی حکومت کو گرا کر اس کی جگہ میر عبدالقدوس بزنجو کو وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر براجمان کردیاگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ثناء بلوچ کی گرجدار آواز اور تقاریر ایوان میں مدہم ہوتی چلی گئیں اور آخر میں کسی کو سنائی نہ دیں۔ عبدالقدوس بزنجو گو کہ وزارتِ اعلیٰ کی اہم پوزیشن پر فائز ہوگئے مگر کرسی کا کمان سردار اختر جان مینگل کے ہاتھ آیا۔ پھر سب نے دیکھا کہ شراکتِ اقتدارکے بغیر بی این پی کے اراکین نے کس طرح فائدہ اٹھایا۔ مگر وزارتِ اعلیٰ کے دور میں جوکوئی فائدہ نہ اٹھا پایا وہ تھا بدقسمت آواران۔ نہ اس کی قسمت میں سڑکوں کی تعمیرات کا کام آیا نہ تعلیمی نظام بہتر ہوا اور نہ ہی صحت کا شعبہ فعال ہوا۔ بلکہ ہر شعبہ مزید بدتر ہوا اور اس کا خمیازہ مفلوک الحال عوام کو بھگتنا پڑا۔
2024 کے جنرل الیکشن میں جہاں پارٹیاں اپنے اپنے حلقوں میں انتخابی مہم چلا رہی تھیں۔ وہیں سردار اختر جان مینگل اپنی پارٹی امیدوار عبدالصمد میروانی کے بجائے پیپلزپارٹی کے امیدوار میر عبدالقدوس بزنجو کے حق میں جلسہ کرنے آواران آئے۔ سردار صاحب کی آمد نے آواران میں بی این پی مینگل کا بچا کچا وجود ختم کر ڈالا ۔بی این پی اور سردار اختر جان مینگل کے وفادار ساتھی اپنی راہیں جدا کرکے نیشنل پارٹی میں شامل ہوگئے اور جو رہ گئے وہ پہلے سے ہی میر عبدالقدوس بزنجو کی کمان کا حصہ تھے۔ اور سب نے دیکھا کہ بی این پی کے حصے میں فقط 86 ووٹ آئے۔
سردار اختر جان مینگل کی تمام تر کوششیں اور حمایتیں میر عبدالقدوس بزنجو کے کام نہ آئیں اور وہ ہار گئے۔ میر عبدالقدوس بزنجو کی ہار کی پس پردہ کئی محرکات تھے۔ سڑکوں کی ابتر صورتحال اہم محرک بنا۔ دو بار وزارتِ اعلیٰ کی اہم پوزیشن پر فائز ہونے کے باوجود وہ آواران کو انصاف نہ دلا سکا اور نہ ہی اس کے مشیروں نے اس کی توجہ اس جانب مبذول کرائی۔ ٹیم کی تمام تر توجہ ترقیاتی منصوبوں سے حاصل شدہ آمدن پر تھی۔ اور سب نے دیکھا کہ حاصل شدہ آمدن ووٹوں کی خریداری پر لگادی گئی اور خریداری پر لگائی جائے والی رقم مشکے اور نال کور میں بہادی گئی۔