|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2024

کوئٹہ:پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان وفاق کے بعد بلوچستان میں بھی شراکت اقتدار کا فارمولا طے پایا ہے جس کے تحت گورنر، سپیکر صوبائی اسمبلی اور سینیئر وزیر کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہوگا جبکہ وزیراعلی پیپلز پارٹی سے ہوگا۔ باپ پارٹی کو دو صوبائی وزارتیں ملیں گی۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان شراکت اقتدار اور حکومت سازی کے حوالے سے قائم کمیٹیوں نے دونوں جماعتوں کی نشستوں کو سامنے رکھتے ہوئے طے کیا ہے کہ صوبے میں دونوں جماعتوں کو ابتدائی طور پر چھ چھ وزارتیں دی جائیں گی اور اضافے کی صورت میں تناسب کو برقرار رکھا جائے گا۔

اسی طرح دونوں جماعتوں نے اپنی اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی کو بھی اقتدار کا ساجھی بنایا ہے اور اس کو دو وزارتیں دی جائیں گی۔ ڈپٹی سپیکر بلوچستان اسمبلی کا تعلق بھی پی پی پی سے ہوگا۔

بلوچستان میں پی پی پی کو مخصوص نشستوں کے بعد 19اور مسلم لیگ ن کو 18نشسیں حاصل ہوں گی جبکہ حکومت سازی کے لیے 33 نشستیں درکار ہیں۔ باپ ، اے این پی کو شامل کرنے کے بعد بلوچستان اسمبلی میں حکمران اتحاد کی تعداد 40 سے تجاوز کر جائے گی۔ پیپلز پارٹی نے وزارت اعلی کے لیے مختلف ناموں پر غور شروع کر رکھا ہے جس میں صادق عمرانی، نواب سرفراز بگٹی، ثنا اللہ زہری اور ظہور بلیدی شامل ہیں۔

اس حوالے سے پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ پارٹی قیادت صوبائی وزیر اعلی اور کابینہ کے لیے ناموں پر غور کر رہی ہے۔فیصل کریم کنڈی کے مطابق پارٹی کا اعلان تھا کہ صوبے کا وزیر اعلی جیالا ہوگا اب اس پر عمل درآمد ہونے جا رہا ہے۔

پیپلز پارٹی نے پہلے بھی آغاز حقوق بلوچستان کے نام سے صوبے کو ایک پیکیج دیا تھا اب بھی بلوچستان کے عوام کی محرومیاں ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

دوسری جانب گورنر کے لیے مسلم لیگ ن پارٹی کے صوبائی صدر جعفر مندوخیل کو صوبے کا گورنر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کی صوبائی قیادت نے مرکزی قیادت کے فیصلے پر اگرچہ تحفظات کا اظہار کیا ہے تاہم اسے قبول بھی کر لیا ہے۔

اس حوالے سے صوبائی صدر مسلم لیگ ن جعفر مندوخیل کا کہنا ہے کہ ہمارے ایم پی ایز کی یہ خواہش تھی کہ وزارت اعلی ہمارے پاس ہونی چاہیے۔ ہماری پارٹی کے قیادت نے جو کہا وہ قبول کیا گیا ہے۔ وزارت اعلی بلوچستان کا جو فیصلہ ہو چکا ہے، تو وہ سب کو قبول ہے۔ فیصلے کا اختیار پہلے ہی مرکزی قیادت کو دیا ہوا تھا۔ ہماری خواہش تو آج بھی یہی ہے کہ وزارت اعلی ہمارے پاس ہو۔