|

وقتِ اشاعت :   February 23 – 2024

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ گزشتہ کئی دہائیوں سے تعطل کا شکار ہے جس کی بڑی وجہ عالمی پابندیاں ہیں، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے امریکہخوش نہیں اور اس کی جانب سے یہ دبائو ہر وقت رہتا ہے کہ پاکستان ایران کے ساتھ اس منصوبے پر کام نہ کرے حالانکہ ایران کی جانب سے گیس منصوبے پر کام کیا گیا ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے پیش رفت کا انتظار ہے۔ ایران کے ساتھ اگریہ گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل ہوجائے تو پاکستان سے توانائی بحران کا نہ صرف خاتمہ ہوگا بلکہ معاشی حوالے سے بھی بہت بڑی تبدیلی رونما ہوگی جس کا سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان سے جیسے محروم خطے کو ملے گا۔

ایران پہلے سے ہی بلوچستان کے ڈسٹرکٹ مکران میں بجلی فراہم کررہا ہے اور مزید بھی بجلی دینے کو تیار ہے مگر ہمارے یہاں فیصلے اس بنیاد پر نہیں ہورہے کہ پاکستان معاشی حوالے سے آئی ایم ایف کی شرائط پر چل رہا ہے اور آئی ایم ایف کے پیچھے عالمی قوتیں ہیں جن کا بڑا کردار ہے کہ وہ کن ممالک کو قرض دینے اور نہ دینے کا فیصلہ کریں۔ پاکستان کے لیے پاک ایران گیس منصوبہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اب مختلف خبریں سامنے آرہی ہیں کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر امریکی پاپندیوں یا8ارب ڈالر جرمانے کا سامنا ہوگا۔ پاکستان نے امریکی پابندیوں سے چھوٹ حاصل کرنے کا فیصلہ موخر کردیا ہے، خطے کی جیو پولیٹکل صورتحال کے پیش نظر امریکہ سے درخواست نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

عالمی لیگل فرم کے مطابق پاکستان نے توانائی کا منصوبہ شروع کیا توامریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔آئندہ تین ماہ میں پائپ لائن کی تعمیر شروع کرنا ضروری ہے بصورت دیگر 18 ارب ڈالرجرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔

پٹرولیم ڈویژن نے 5 سفارشات پر مشتمل سمری کابینہ کمیٹی برائے توانائی کو ارسال کردی ہے۔ پاکستان ایرانی بارڈر سے گوادر تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرے تو جرمانے سے مہلت مل جائے گی۔پاکستان نے عالمی لیگل فرم سے قانونی تجویز حاصل کرلی،آج اس پر حتمی فیصلے کاامکان ہے۔ ایرانی بارڈر سے گوادر تک پائپ لائن بچھانے پر بھی امریکی پابندی کا سامنا کرناپڑسکتا ہے۔وزارت خزانہ نے اٹارنی جنرل اور وزارت خارجہ سے رائے لینے کی ہدایت کردی ہے۔

بہرحال پاکستان اس وقت بہت سارے مسائل کا شکار ہے ایک طرف عالمی دبائو تو دوسری جانب ملک میں توانائی بحران اور لڑکڑاتی معیشت ہے اس سے نکلنے کے لیے پاکستان کو بڑے فیصلے کرنے ہونگے۔ بعض ملکی ماہرین معیشت پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی نہ صرف حمایت کرتے ہیں بلکہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت کو وسعت دینے پر بھی زور دیتے ہیں تاکہ ملکی معیشت میں بہتری آنے کے ساتھ تعلقات مضبوط اور مستحکم ہوسکیں۔ دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو ایران کے ساتھ بھارت سمیت دنیا کے دیگر ممالک تجارت کررہے ہیں سرمایہ کاری بھی ان کی جاری ہے، چابہار پورٹ پر بھارت، جاپان جیسے ممالک نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہوئی ہے تو پاکستان کیونکر اپنی معیشت کو بہتر سمت دینے کے لیے اہم فیصلے نہیں کرسکتا۔ ملک کی نئی حکومت کو مستقبل کے لیے معاشی حوالے سے سخت فیصلے کرنے ہونگے جس سے ملکی معیشت اور مفادات کو تحفظ مل سکے۔

اب دیکھتے ہیں کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا مستقبل کیا ہوگا اور ہمارے حکمران کیا فیصلہ کرینگے، ویسے دونوں صورت میں نقصان کا امکان موجود ہے لہذا فیصلہ وہ کیا جائے جس سے ملکی معیشت سنبھل سکے اور درپیش معاشی مشکلات سے نجات مل سکے۔