|

وقتِ اشاعت :   March 8 – 2024

عالمی مالیاتی ادارے نے سفارش کی ہے کہ وفاقی بورڈ آف ریونیو کو جدید اور نیم خودمختار ٹیکس اتھارٹی بنایاجائے جو طویل مدتی دورانیے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر ٹیکس جمع کیا کرے۔وفاقی سطح پر اورصوبوں میں ٹیکس جمع کرنے کو الگ الگ کرنے سے پالیسی سازی او ر ریونیو ایڈمنسٹریشن کے حوالے سے چیلنج پیدا ہوتے ہیں۔

آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام کو اپنی تشخیص بتادی اور کہا ہے کہ طویل مدتی بنیادوں پر اس حوالے سے مذاکرات مکمل کیے جائیں اور اقدامات کیے جائیں تاکہ جدید ٹیکس اتھارٹی بنائی جائے جو وفاق اور صوبائی سطح پر ٹیکس اکٹھاکیا کرے۔پارلیمنٹ ٹیکس کے حوالے سے صرف ان معاملات پر قانون سازی کرسکتی ہے جنہیں وفاقی قانون سازی کے معاملات کی فہرست ایف ایل ایل میں شامل کیا گیا ہو اور جو آئین کے چوتھے شیڈول میں شامل ہے۔ پارلیمنٹ کے پاس جہاں عمومی ٹیکس کی اقسام کے حوالے سے وسیع تر قانون سازی کی طاقت ہے وہیں وہ معاملات جو صوبائی اسمبلیوں کے قانونی دائرہ کار میں آتے ہیں

جن میں زرعی ٹیکس اور غیر منقولہ جائیدا د پر ٹیکس اور خدمات پر سیلز ٹیکس شامل ہیں وہ ان کے بارے میں قانون سازی نہیں کر سکتی۔ سیلز ٹیکس کو اشیا ء اور خدمات میں یوں بانٹ دینے سے ویلیوچین کے لیے کنفیوژن پیدا ہوتا ہے، چند وفاقی ٹیکس ریونیوز قابل تقسیم پول میں رکھے گئے ہیں جو صوبوں اور مرکز میں این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے تقسیم ہوتے ہیں، اس سے بھی خرابی پیدا ہوتی ہے جہاں وفاقی حکومت ایسے ٹیکسز جمع کرنے کو ترجیح دیتی ہے جو قابل تقسیم آمدن میں شامل نہ ہوں جیسا کہ پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی وغیرہ ہیں۔ دوسری جانب صوبوں کو اپنی آمدن بڑھانے کے لیے ضروری ترغیب نہیں مل پاتی، جیسا کہ 2019 کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ آئینی ترمیم سے کم تر آپشن یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک اتفاق رائے پر پہنچ جائیں جہاں ٹیکس کی بنیاد کو متحد کیاجائے اور ٹیکس کی بنیاد میں ، ٹیکس جمع کرنے میں اور اس کا نفاذ ایک ہی انتظامیہ کے تحت ممکن ہوسکے۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ نیشنل ٹیکس کونسل نے صوبے اور مرکز کو سہولت دی ہے کہ وہ اشیاء اور خدمات کی تعریف پر اتفاق کر سکیں ،اس کے ٹرمز آف ریفرنسز کو ان مقامات تک پھیلایاجاسکے جہاں وفاق اور صوبوں کا اتفاق رائے ہو اور زراعت اور انکم ٹیکس کے حوالے سے اس قسم کا تعاون بہت اہم ہے۔ ملک میں ٹیکس کا نظام شفاف ہوگا تو اس سے فائدہ ملکی خزانہ کو پہنچے گا ،نظام ٹیکس کے اندر ان بڑے لوگوں کو شامل کیاجائے جو اب تک ٹیکس سے چوٹ حاصل کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔

ملک کے اندر بڑے صنعتکار سیاست کا سہارا لیتے ہوئے جائیدادیں بناتے ہیں ،کاروبار کو وسعت دیتے ہیں اور اپنی آمدن کو کم دکھاتے ہوئے ٹیکس سے بچنے کے لیے مختلف ٹیکنیک استعمال کرتے ہیں جبکہ بعض سیاستدان بھی اسی طرح کرتے ہیں جو سیاست کی آڑ میں دولت بناتے ہیں اور اپنی رقم باہر منتقل کرتے ہیں۔ ملک کے اندر اس وقت سب سے زیادہ ٹیکس کا بوجھعوام پر ہے لہٰذا ٹیکس کے نظام کو شفاف بناکر ہی عوام کو ریلیف دلایا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی اس سے قومی خزانے کو بھی فائدہ پہنچے گا۔