|

وقتِ اشاعت :   March 17 – 2024

پاکستان نے نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے فارمولے میں تبدیلی کا آئی ایم ایف کا مطالبہ مسترد کردیا۔ اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف نے این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے حصے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا تھا۔

این ایف سی پر خلاف آئین کوئی تجویز منظور نہیں کی جائے گی۔ وفاق کے محصولات بہتر بنانے کیلئے متبادل ذرائع تلاش کئے جائیں گے، این ایف سی پرترامیم کا مطالبہ آئی ایم ایف پہلے بھی کرتا رہا ہے، این ایف سی کے تحت صوبوں کا حصہ کم نہیں ہوسکتا۔

ذرائع کے مطابق این ایف سی کے اخراجات میں وفاق اور صوبے مل کر نئی حکمت عملی بناسکتے ہیں، وفاق اورصوبوں میں بجلی نقصانات مشترکہ طور پر برداشت کرنے کی حکمت عملی بنائی جاسکتی ہے، سیکیورٹی سے متعلق اخراجات پر بھی مشترکہ حکمت عملی بنائی جاسکتی ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کے اخراجات پربھی مشترکہ حکمت عملی بنائی جاسکتی ہے۔

واضح رہے کہ آئی ایم ایف کا وفد اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کے تحت 1.1 ارب ڈالر کی تیسری قسط کے اجرا سے قبل جائزے کیلئے پاکستان میں موجود ہے اور پاکستانی حکام سے مذاکرات جاری ہیں۔ بہرحال آئی ایم ایف اس سے قبل بھی کڑی شرائط حکومتوں کے سامنے رکھتی آئی ہے جن میں بعض شرائط کو تسلیم کرنے کی وجہ سے عوام پر ٹیکسز سمیت مہنگائی کا ناقابل برداشت بوجھ بڑھ گیا ہے، این ایف سی ایوارڈ کی رقم ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے صوبے اپنے مالی اخراجات، منصوبوں کی تشکیل، روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہیں اور اب یہ آئین کا حصہ ہے جس کا سہرا پاکستان پیپلز پارٹی کو جاتا ہے جس نے این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے پسماندہ صوبوں کی ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کیلئے آئین کا حصہ بنایا ۔اگر این ایف سی ایوارڈ میں چھیڑ چھاڑ ہوگی تو وفاق صوبوں کے مسائل برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا ،پورا نظام ہی ٹھپ ہوکر رہ جائے گا اس سے ایک نیامحاذ صوبوں اور وفاق کے درمیان کھل جائے گا جسے وفاق برداشت نہیں کرپائے گا۔ بہرحال آئی ایم ایف نے پاکستانی معیشت کے ساتھ پورے نظام کو شکنجے میں لے رکھا ہے چونکہ پاکستان کو نظام چلانا ہے اور اس کیلئے رقم درکار ہے جو موجود نہیں اس لئے آئی ایم ایف اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے سخت شرائط لے کر سامنے آتی ہے مگر یہ اب حکمرانوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ کب تک قرض کے ذریعے ملکی معیشت سمیت پورے نظام کو چلایا جاسکتا ہے؟

پاکستان زرعی، معدنیات سمیت دیگر وسائل سے مالا مال خطہ ہے مگر بدقسمتی سے بیڈ گورننس اور سیاسی مصلحت پسندی، کرپشن کی وجہ سے حکمرانوں نے ملک کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ وہ بیرونی قرضوں کی بیساکھیوں پر کھڑا ہے لہذا اب اس مصیبت سے نکلنے کیلئے ملک اور عوام کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کئے جائیں ،شاہی خرچے ختم کئے جائیں ،پروٹوکول سسٹم کو بند کیا جائے ،غیر ضروری حکومتی اخراجات پر پابندی لگاتے ہوئے معاشی پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ بیرونی قرض لینے سے جان چھوٹ جائے۔ اشرافیہ والا نظام ملکی تباہی کا سبب بن سکتا ہے لہذا اسے جتنا جلد خیرباد کیا جائے اتنا ہی بہتر ہوگا ورنہ نہ شاہ بچے گا نہ اس کا پروٹوکول۔