|

وقتِ اشاعت :   March 23 – 2024

ملک کو معاشی بحران سے نکالنے اور مضبوط سیاسی نظام سے جوڑنے کیلئے اکائیوں کے درمیان مضبوط تعلقات، روابط، فیصلہ سازی میں مشاورت ملکی مفادات کے تحفظ کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ صوبہ خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے جبکہ پنجاب، بلوچستان میں مخلوط حکومت قائم ہے اور سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ پنجاب میں ن لیگ جبکہ بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی زیادہ پاور میں ہے گوکہ مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی کابینہ کا حصہ نہیں ہے مگر مرکزی حکومت کے ساتھ بطور اتحادی سپورٹ میں کھڑی ہے اور صدر مملکت آصف علی زرداری پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے صدر بھی ہیں تو اس طرح ایک مضبوط سیاسی اتحاد ان کے درمیان موجود ہے۔ بہرحال خیبرپختونخواہ میں جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہاں مرکز کیلئے وقتاًفوقتاً پریشانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی اوریہ سب کچھ بانی پی ٹی آئی کی ہدایات کے مطابق ہو گی اس بات سے قطع نظر کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ علی امین گنڈا پور نے وزیراعظم سے ملاقات کے بعد ساتھ چلنے کی بات کی تھی مگر 9 مئی کے واقعے کے کیس پر گرفتاری کے وارنٹ کے خلاف وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ نے دھمکی آمیز لہجہ استعمال کیا یعنی اپنے مفادات کے تحت ہی وہ چلیں گے ملکی مسائل و مشکلات ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ خیبرپختونخواہ کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کے دھمکی آمیز بیان کو تجزیاتی طور پر لیتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے ایک اجلاس کے دوران شرکاء کو آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات سے آگاہ کیا اور معیشت کی بحالی کیلئے معاشی ٹیم کا پلان بھی ایس آئی ایف سی کے سامنے رکھا۔وزیر اعظم نے کہا کہ اس پلیٹ فارم کا مقصد بیرون ملک سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنا ہے، اجلاس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے منتخب نمائندے اور عسکری قیادت موجود تھی، یہ اس بات کا واضح پیغام ہے کہ ملکی ترقی کیلئے ہم سب اکٹھے ہیں۔شہباز شریف کا کہنا تھا معیشت کو بہت بڑے چیلنجز درپیش ہیں، وفاق معاشی بحران سے اکیلے نہیں نمٹ سکتا، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اپنی انا اور اختلافات ختم کریں اور مل کر ملک کو بنائیں، بہت جلد ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگی اور ہم اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔بہرحال وزیراعظم نے معاشی و سیاسی حوالے سے تفصیلی بات کی ہے مگر یہاں اہم نقطہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی انا اور اختلافات ختم کرنے کی بات ہے جس کا واضح اشارہ خیبرپختونخواہ حکومت کی طرف ہے ۔اس پر پہلے سے تشویش موجود ہے کیونکہ پی ٹی آئی نے اپنی صوبائی حکومت کی مشینری کو مرکز کے خلاف ماضی میں بھی استعمال کیا تھا اور اب بھی یہی خدشات موجود ہیں جو مرکزی حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے مختلف حربے استعمال کرے گی جس کا مقصد بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور مرکزی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنا ہے تاکہ وہ حاوی ہوسکیں مگر حالات اب ماضی جیسے نہیں ہیں کہ پی ٹی آئی غیر یقینی صورتحال پیدا کرے اور موجودہ معاشی بحران کے دوران مزید مسائل کھڑی کرے اور سب خاموش رہیں۔لیکن ایسا ممکن نہیںکیونکہ مرکزی حکومت اپنا کام کرے گی اور اتحادی جماعتیں مشترکہ حکمت عملی کے تحت پالیسی پر گامزن ہوکر سیاسی عدم استحکام کو روکیں گی جبکہ پاک فوج کی جانب سے بھی ایک بار نہیں متعدد بار یہ بات دہرائی جاچکی ہے کہ ملک میں عدم استحکام کرنے والے اور 9 مئی کے سانحہ میں ملوث عناصر کو کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا، آئینی اور قانونی طور پر پاک فوج اپنے فرائض سر انجام دے گی۔ بہرحال اب یہ پی ٹی آئی پر منحصر ہے کہ وہ اس بحرانی کیفیت میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا کرکے اپنے لئے مزید مشکلات پیدا کرے گی یا پھر جو مینڈیٹ ملا ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مرکز کے ساتھ تعلقات بہتر کرکے ملک کو موجودہ چیلنجز سے نکالنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے گی جو ملک اور عوام سب کے مفاد میں ہے ۔اگر روش نہ بدلی گئی تو پی ٹی آئی مزید خسارے میں جائے گی اور اس کا نقصان بھی اٹھائے گی جو پہلے بھی اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مشکلا ت میں ہے ۔