ملک میں قومی ادارے جو خسارے میں جارہے ہیں ان میں اصلاحات کی جائیںیا پھر پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے چلایا جائے تو بہتر ہوگا اس سے قومی خزانہ پر بوجھ بھی نہیں آئے گا اور تمام ملازمین کی ملازمتیں اوردیگر مراعات خطرات میں نہیں پڑینگی کیونکہ موجودہ حالات سے سب ہی واقف ہیں کہ فی الحال معاشی حالات ایسے نہیں کہ روزگار کے دیگر ذرائع وسیع پیمانے پر پیدا کئے جاسکیں اور نہ ہی ملک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہورہی ہے اگرچہ چند ممالک کام کررہے ہیں مگر اس سے خسارہ کو پورا کرنے ،ڈیفالٹ جیسے خطرات سے بچنے اور معیشت کو چلانے کے ساتھ قرض کی ادائیگی ہوپارہی ہے جس میں عوام کا بھی ایک بڑا حصہ ہے جو ان سے ٹیکس کی مد میں لیا جارہا ہے۔
نجکاری کے ذریعے ملازمین کے اندر موجود تشویش کو ختم کرنا ضروری ہے کیونکہ پرائیویٹ ادارے اپنے منافع کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اخراجات کو محدود کیا جائے وہ اس طرح کی پالیسیاں لاتے ہیں جس سے ملازمین کی تعداد کم ہواور بیشتر مراعات کو کم کرنے کے ساتھ تنخواہوں میں کٹوتی بھی کی جاتی ہے۔ اب وہ ملازمین جوگزشتہ کئی برسوں سے اداروں میں اپنی خدمات فراہم کررہے ہیں ان کی زندگی بری طرح متاثر ہو جائے گی ان کے بجٹ پر بہت زیادہ منفی اثرات پڑینگے جس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا لہذا نئی حکومت نجکاری کے دوران ملازمین کے تحفظ کو بھی یقینی بنائے۔
بہرحال پی آئی اے کی نجکاری کیلئے اہم قانونی ضرورت پوری کردی گئی اور بورڈ آف ڈائریکٹرز نے غیرمعمولی اجلاس میں پی آئی اے کی نجکاری کے حکومتی منصوبے کی توثیق کردی ۔ اطلاعات کے مطابق نجکاری کے معاملے پر پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرزکا غیرمعمولی اجلاس ہوا۔ نجکاری کیلئے مالیاتی مشیر ارنسٹ ینگ کمپنی کی تیارکردہ رپورٹ پربریفنگ دی گئی۔بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پی آئی اے کی نجکاری کے حکومتی منصوبے کی توثیق کردی۔اجلاس میں پی آئی اے ملازمین کے مستقبل سے متعلق بھی تجاویزپرغور کیا گیا اور جن ملازمین کی سروس 4 سال رہ گئی انہیں ریٹائر کرنے کی بھی تجویز زیر غور آئی۔نجکاری سے قبل رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کی تجویزپر بھی غورکیاگیا۔پی آئی اے بورڈ اکتوبر 2023 سے غیرفعال تھا۔ وفاقی کابینہ نے پی آئی اے کے نئے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری چند روز قبل دی تھی۔
سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے قوانین کے تحت پی آئی اے کے اہم فیصلوں سے متعلق بورڈ سے منظوری لازمی ہے۔ بہرحال جو بھی فیصلے حکومت کرے اپنے عوام کے مفادات کو اولین ترجیح دے۔ قومی اداروں میں خسارے کے اسباب بھی سیاسی رہے ہیں ۔سیاسی مداخلت، بوگس بھرتیاں، میرٹ کی پامالی، مبینہ کرپشن جیسے سنگین عوامل اس میں شامل ہیں اگر اداروں کی بہتری کیلئے اول روز سے بہترین پالیسیاں بنائی جاتیں اور میرٹ کو ترجیح دی جاتی تو منافع بخش قومی ادارے بحران کا شکار نہ ہوتے۔ ہمارے پاس دیگر ترقیاتی یافتہ ممالک کی طرح قوانین پر عمل تو نہیں کیا جاتا جہاں پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے ملازمین بہت خوشحال زندگی گزارتے ہیں ۔ آج کا نوجوان بیرون ملک صرف روزگار کیلئے جاتا ہے جہاں انہیں ہر قسم کی سہولیات اور مستقبل تابناک دکھائی دیتا ہے ہمارے یہاں بھی ایسا ہوسکتا ہے اگر قانون سازی اور بہترین پالیسیاں بنائی جائیں۔