ملک موجودہ حالات میں قرض کے بغیر نہیں چل سکتا اس کا سب کو بخوبی علم ہے اور یہ پہلی بار نہیں کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف سے قرض لے رہی ہے بلکہ یہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے ملکی معیشت قرض پر چل رہی ہے جو دوست ممالک سمیت مالیاتی اداروں سے لی جارہی ہے مگر اس کے مثبت اثرات مرتب ہورہے اور نہ ہی معیشت کی بہتری کی کوئی صورت نکل رہی ہے جس کی بڑی وجہ ہمارے ہاں معاشی پالیسیوں کے تسلسل کا نہ ہوناہے اور نہ ہی لمبے عرصے تک معیشت کے متعلق کوئی پالیسی ایسی بنائی گئی جسے ہر دوسری حکومت پابندی کے ساتھ چلاسکے –
اندرون خانہ سیاسی عدم استحکام اور کشیدگی کی وجہ بھی ایک المیہ ہے اگر سیاسی حوالے سے رویوں میں تبدیلی آجائے اور اندرون خانہ معاملات کو بہتر طریقے سے چلانے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز نیک نیتی کے ساتھ کام کریں تو معیشت کی بہتری کیلئے بہت سارے راستے کھل سکتے ہیں-
قرض لینے کے بعد مہنگائی میں اضافہ لازمی ہوگا اور ہر چیز پر ٹیکس کا نفاز کیا جائے گا جس کا بوجھ اب عام آدمی سے لیکر تاجر تک برداشت کرنے کو تیار نہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جب مصنوعات مارکیٹ میں مہنگے داموں میں آئیں گی تو عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوں گی، جب وہ خریدے گا نہیں تو تاجر اس کا نقصان اٹھائے گا ایک بے یقینی کی صورتحال پیدا ہوجائیگی -اس لئے معیشت کے ساتھ سیاسی استحکام پر توجہ بہت ضروری ہے اور سب کو ملکر ملک کو چلانے کیلئے کام کرنا ہوگا –
عوام اپنے نمائندگان کو ووٹ اسی بنیاد پر دیتے ہیں کہ ان کی سہولیات کیلئے کام کرینگے ان کی مشکلات میں کمی لائینگے روزگار کے مواقع سمیت ہر سہولت کی فراہمی یقینی بنائینگے یہ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں رہ کر ملک اور عوام کیلئے فکر مند ہوں اور اپنے اختلافات کو ملکی مفادات پر حاوی نہ ہونے دیں -ملک کی سیاسی و معاشی استحکام کیلئے مشترکہ طور پر چلنے کا عہد کریں تو ملک آنے والے وقتوں میں بحرانات سے نکلے گا بھی اور قرض سے نجات بھی حاصل کرلے گا۔ موجودہ حکومت کے معاشی حوالے سے مثبت اقدامات کو اپوزیشن سپورٹ کرے نا کہ ان پر سیاست کرکے مشکلات پیدا کرے لچک دونوں جانب لازمی پیدا کرنے کی ضرورت ہے سیاسی انا کو دفن کئے بغیر ملک سے بحرانات کا خاتمہ نہیں ہوسکتا بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون سے ہی چیلنجز سے نمٹا جاسکتا ہے۔