|

وقتِ اشاعت :   April 4 – 2024

پہلا حصہ

تیز سورج چمن کی وادی کو دھوپ میں شرابور کر چکا تھا۔اس تمازت سے برف سے ڈھکی چوٹیاں آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ مراد، ایک چھوٹا مقامی تاجر، جس کے ہاتھ سالوں کی لین دین سے سے کھردرے ہوچکے تھے، اپنی سکوٹر سے کچی پکی گلیوں میں گرد اڑا رہا تھا۔ مگر آج اس کا دل بازار میں نہیں تھا۔ اس کا دل اس وقت اپنے بیٹے حسن کے لیے دھڑک رہا تھا، جو کچے مٹی کے گھر میں لیٹا ہوا تھا۔چند ہفتوں پہلے کی ہی تو بات تھی ، حسن ایک توانائی کا طوفان تھا، مرغیوں کے پیچھے بھاگنا اور آسمان میں اڑتے ہوائی جہاز کو پکڑنے کی کوشش کرنا۔ پھر بخار آیا، ٹانگوں میں کمزوری آئی اور بھیانک لنگڑے پن کا درد اس کی ہنسی کو درد میں بدل گیا۔ ڈاکٹر کی باتیں مراد کے کانوں میں گونج رہی تھیں: پولیو۔اسی وقت ایک اور دور دراز علاقے میں، چمن کی گہماگہمی سے دور، ڈیرہ بگٹی کے سنگلاخ تپتے پہاڑوں تلے ایک سرکاری ملازم حمید کے سادہ گھر میں کچھ ایسا ہی منظر تھا۔ وہ اپنے بیٹیسلیم کو گود میں لیے آنکھوں سے جاری آنسوں کے ساتھ دل ہی دل میں بین کر رہا تھا۔ جس طرح مراد حقیقت سے بھاگنے کی ناکام کوشش کررہا تھا، اس کے عین برعکس حمید ندامت کے سمندر میں ڈوبا تھا اور خود کو ملامت کر رہا تھا کہ وہ کیونکر اپنے بچے کو نہ بچا سکا۔ ان بچوں کے اپاہج پن کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی، گویا یہ زہریلا وائرس گاؤں کے گاؤں اجاڑ دے گا۔ یہ خبرعائشہ تک پہنچی اور اسکا کا سینہ بھاری ہو چکا تھا۔وہ ایک درمیانے عمر کی پولیو ورکر تھی جو چمن کے ایک بڑے قبیلے سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ خبر مولانا بشیر تک بھی پہنچی۔ایک قابل احترام مذہبی عالم، جس کی آواز کبھی گرجدار ہوا کرتی تھی۔ مگر اب دو جملوں کے بعد کھانسی۔ اور یہ خبر سردار خان تک بھی پہنچی۔ قبیلے کا لمبا تڑنگا سردار، جس کے ماتھے پر اس وقت حیرت کی شکنیں کھیل رہی تھی۔یہ صرف دو بچوں کی ایک وائرس کی وجہ سے معذور ہونے کی کہانی نہیں تھی۔ یہ ایک گاؤں کی کہانی تھی، ایک امتحان کی کہانی تھی، امید کی ایک جھلک جو زندہ رہنے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ کہانی لکھے جانے کی منتظر تھی۔دوسرا منظر…موسم بہار کے مہینے کی دھوپ عائشہ کے چہرے کو آج کچھ ذیادہ ہی جھلسا رہی تھی۔جیسے جیسے وہ کریم کے دروازہ کی طرف بڑھ رہی تھی تمازت بھی بڑھتی گئی۔ امیدکا ایک نازک شعلہ اس کے اندر جل رہاتھا۔ کریم، علاقے میں ویکسین کا مخالف جو اپنے ضدی پن اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے مشہور تھا۔ عائشہ نے گہری سانس لے کر دستک دی۔پرانا بوسیدہ دروازہ چراہٹ کے ساتھ کھلا اور کریم نظر آیا۔ عائشہ!!!! اس نے ہمیشہ کی طرح غرانے جیسی آواز کے ساتھ عائشہ کو پکارا۔شک اور حقارت کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ بولا۔تم پھر کیوں آئی ہو یہاں؟ کریم،” عائشہ نے گفتگو کی شروعات کی، آواز میں نرمی اور استقامت، “یہ تمہاری بیٹی نادیہ کے بارے میں ہے۔ کل ہماری ایک اور ویکسین مہم شروع ہورہی ہے۔”دور لے جاؤ یہ زہر میرے گھر سے،” کریم نے حقارت سے تھوکااور ساتھ میں گلے میں لٹکے تعویذ کو عادتاً ہاتھ لگایا، “اللہ ہی میرے بچوں کو ایسی بیماریوں سے بچاتا ہے۔”عائشہ نے خود کو سنبھالا اور چھبتی نظروں سے بولی۔ “اللہ نے انسان کو علم دیا ہے، کریم۔ اور ویکسین اس علم کا ایک تحفہ ہے، ایک ذریعہ ہے بیماری کو روکنے کا۔”کریم تحقیر سے پھنکارا۔ “تم تعلیم یافتہ لوگ ہماری روایات کو نہیں سمجھتے۔ یہ ویکسین بچوں کو مزید کمزور کرتی ہیں۔!”
عائشہ کچھ گھبرا سی گئی مگر پھر سے خود کو سنبھالا۔ “یہ محض افسانے ہیں ، کریم۔ ویکسین بچوں کی قوت مدافعت بڑھاتی ہیاور انہیں پولیو جیسی پھیلنے والی بیماریوں سے بچاتی ہیں۔””پولیو؟ محض ایک کمزوری ہے! اور میری نادیہ مضبوط ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا اس کے ساتھ۔” کریم نے مصنوعی اکڑ سے سینہ پھلایا۔ عائشہ کا دل بھر آیا۔ وہ حسن اور سلیم کے بارے میں سوچنے لگی جو کبھی صحتمند بچے تھے مگر آج اس بیماری سے اپاہج ہوچکے تھے جسے کریم محض کمزوری قرار دے رہا تھا۔ “لیکن اگر نادیہ کو اپاہج پن ہوگیا پھر، کریم؟” اس نے آہستہ سے پوچھا، اس کی آواز جذبات سے بھرا گئی۔ “اور اگر ویکسین کے محض دو قطرے اسے عمر بھر کی معذوری سے بچا لیں ؟”کریم کی گرج کچھ دیر کے لیے تھم گئی۔ خوف کی ایک ہلکی سی جھلک اس کی آنکھوں میں نظر آئی۔اس کی شرارتی نادیہ، اور لنگڑی؟ اس نے خوف کو چھپانے کی ناکام کوشش کی مگر عائشہ نے اس کے چہرے کو پڑھ لیا۔ خوف بمقابلہ جہالت، محبت بمقابلہ غرور۔ عائشہ کو معلوم تھا کہ وہ اسے مجبور نہیں کر سکتی، لیکن شاید وہ کریم کے دل میں شک کا بیج بو چکی تھی۔ اس کی ہمت بندھ گئی اور مزید زور دے کر بولی، “اپنے فیصلے کی قوت کو آواز دو۔یہ تمھارے بچے کی صحت کا سوال ہے۔ اس کے مستقبل کا سوال۔ نادیہ کو ویکسین پلوائیں اور اسے اس موضی مرض کو شکست دینے کا موقع دو، کریم ،عائشہ ،کریم کی آنکھوں میں خاموش جنگ کو بھانپ چکی تھی – ایک لمبی خاموشی چھا گئی۔ بہت بھاری خاموشی۔تب وہ کریم کو مخاطب کر کے دوبارہ بولی۔ فیصلہ تمھارا ہے کریم۔ مگر سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا۔اس کے ساتھ ہی وہ بوجھل قدموں کے ساتھ روانہ ہوئی، ایسا لگ رہا تھا جیسے گاوں کا سارا بوجھل پن اس کی تھکی کندھوں پر سوار تھا۔ مایوسی کے اندھیرے میں امید کی کرن تاہم پھر بھی زندہ تھی۔ شاید، بس شاید، کریم کا خوف اس کی ڈھٹائی کو شکست دے سکے۔ یہ عائشہ کی لڑائی تھی۔ ہر بچہ، ہر بار دو قطرے۔تیسرا منظر…مسجد کی دھندلی روشنی میں ملا بشیر پرانی نمازی قالین پر آنکھیں بند کیے بیٹھا ہوا تھا۔ کبھی اس کی آواز ویکسین کی طاقت ہوا کرتی تھی جو منبر سے والدین کے دلوں کو موم کرتا تھا۔ آج کل مگر اس کی ملاقات عائشہ سے بھی کم تھی اور جمعے کے خطبے میں ویکسین کے حوالے سے آگاہی پر بات کرتے ہوئے بھی کتراتا تھا۔ سالہاسال پولیو کا بچوں کو معذور کرنے کا بوجھ اس پر کچھ زیادہ ہی ہوا تھا۔ شاید اب کچھ بے حسی بھی تھی۔ عائشہ مسجد کے صدر دروازے کے قریب صبر سے انتظار کر رہی تھی، تب اس نے کہ ملا بشیر کسی سوچ میں گْم مسجد سے نمودار ہوتے دیکھا۔ اس عظیم واعظ کے کندھے تھک کر جھک چکے تھے۔ عائشہ اسے بہت اچھی طرح سے پہچانتی تھی۔ جب وہ قریب آئے، اْس نے ان کو ادب سے سر جھکا کر سلام کیا۔”ملا بشیر،” اْس نے نرم آواز میں پکارا۔ “کیا میں آپ سے ایک لمحہ بات کر سکتی ہوں؟”وہ اچنبے کے ساتھ رک گیا، حیرت اْس کے چہرے پر پھوٹ پڑی۔ “بالکل، عائشہ۔” اس نے جواب دیا، اْس کی آواز میں چڑچڑاہٹ نمایاں تھی۔وہ دونوں مسجد کی بلند دیواروں کے سایہ تلے کھڑے ہوگئے۔عائشہ کی نگاہوں میں تشویش بھری ہوئی تھی۔”ملا بشیر،” اْس نے گفتگو کا آغاز کیا۔ “حسن اور سلیم کی خبر سنی آپ نے؟””ایک غمناک خبر،”وہ بڑبڑایا۔اور پھر نظریں نیچی کر کے بولا۔تقدیر کا ظلم۔مجھے آپ کے خطبے آج بھی یاد ہیں ملا بشیر۔ عائشہ نرمی سے بولی۔ آپ کی آواز کا طلسم والدین کو ویکسین پر آمادہ کرتا تھا۔ایک موہوم سی جبری مسکراہٹ ملا بشیر کے ہونٹوں پر لرزی۔ کیا شعلہ بیان خطیب ہوا کرتا تھا.وہ وقت مختلف تھا عائشہ۔ اس نے آہ بھری۔ تب ہم پولیو کے خاتمیکیبہت قریب تھے۔ہم پھر سے کر سکتے ہیں۔ عائشہ اصرار بھرے لہجے میں نرمی سے بولی۔ ہمیں آپکی آواز کی ضرورت ہے اخوند صاحب۔آپ کی حکمت پھر سے ہماری رہنمائی کر سکتی ہے۔ ملا بشیر نظریں جمائے عائشہ کی آنکھوں میں ناقابل شکست حوصلے کو دیکھنے لگا۔ ملا کی آنکھوں میں ایک چمک کوندی۔ ہلکی ہی سہی مگر کچھ لمحہ کے لیے جگمگاتی ہوئی۔ شاید عائشہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔ شاید ہم پھر سے کر سکیں۔چوتھا منظر…مراد حسن کے بستر کے قریب بیٹھا تھا؛ اور اپنے بیٹے کے نحیف ہاتھوں کو اپنی مضبوط گرفت میں لیے ہوئے تھا۔انکار،اب ناقابل برداشت ہو چکا تھا اور آہستہ آہستہ پھٹ رہا تھا۔ حسن کی خالی آنکھیں، جو کبھی زندگی کی روشنی سے چمکتی تھی، اب مراد کی الجھنوں کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ادھر ڈیرہ بگٹی میں، حمید سلیم کو گود میں لیے ہلکورے دیرہا تھا۔ کیسی خاموش دعا کی درخواست لیے آنسو اْس کے گالوں سے بہہ رہے تھے۔مراد کے برعکس، حمید نے خود پر بھاری بوجھ طاری کیا تھا۔ کیسے؟ کیسے ہوا یہ سب۔ وہ تو اپنے بچوں کا محافظ تھا۔ آخر کیوں اس نے اپنے بچے کو اس اپاہج پن کے سامنے کمزور رہنے دیا۔ کاش۔اے کاش وقت پلٹ آتا اور وہ حمید کو دنیا کی ہر ویکسین دلاتا۔مگر آج اس نے اپنے بیٹے پر ظلم عظیم کیا۔ وہ ایک اچھا باپ بننے میں ناکام ہوگیا۔ اگرچہ میلوں فاصلہ تھا مگر ان دو گھروں کا روگ ایک جیسا تھا۔ جس اپاہج پن نے انکے بیٹوں پر اندھیروں کے سایے مسلط کر دیے تھے وہ درد تمام فاصلے پار کر گیا۔ پولیو، بھیانک خوابوں کا مسکن، جس نے نہ صرف چلنے کی قوت چھین لی بلکہ ان بچوں کی معصومیت بھی چرا گیا۔(جاری ہے)