|

وقتِ اشاعت :   April 6 – 2024

جامعہ بلوچستان گزشتہ کئی برسوں سے مالی بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے تنخواہوں ،مراعات اور میرٹ کے تحت تقرری کے حوالے سے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے مگر گزشتہ حکومت نے اس معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کیلئے کوئی بھی ٹھوس حکمت عملی نہیں بنائی اور نہ ہی اس معاملے کو حل کرنے کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی جو اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرتی۔ یہ المیہ ہے کہ ہمارے یہاں جز وقتی کمیٹی بنائی جاتی ہے جو چند بیٹھک کے بعد بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہو جاتی ہے یا پھر غیر فعال ہو جاتی ہے نتیجہ احتجاج کی صورت میں نکلتا ہے حالانکہ بہت سے معاملات مشترکہ پالیسی اور حکمت عملی کے ذریعے حل ہو جاتے ہیں پھر ایک پالیسی کے تحت نظام چلنے لگتا ہے۔

ضرورت تو اس امر کی ہے کہ علمی اداروں کے معاملات پر ماہرین کی مشاورت اور کمیٹی میں شرکت ضروری ہوناچاہئے جو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے آئیڈیاز کے ذریعے علمی اداروں کو نہ صرف بحرانات سے نکالنے میںمدد دیتی ہے بلکہ مالی مسائل کے حل سمیت جامعات کو بہترین طریقے سے چلانے کیلئے تجاویز بھی دیتی ہے تاکہ علمی ادارے بہترین طریقے سے اپنا کام جاری رکھیں ۔انسانی وسائل پر رقم مختص کرنے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ علمی ادارے اپنے خطے کیلئے مستقبل میں خوشحالی اور ترقی کے راستے نکالتے ہیں۔ بہرحال جامعہ بلوچستان کے اساتذہ اور ملازمین کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے معاملے پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے کلاسوں، ٹرانسپورٹ اور دفاتر کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔جامعہ بلوچستان کے اساتذہ، ملازمین اور لوئر اسٹاف کی مشترکہ تنظیم جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے دو ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف جامعہ کو ہر طرح کی سرگرمیوں کے لیے بند کر دیا ہے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے پیر کے روز یہ فیصلہ لیا ، ان کا کہنا ہے کہ جب تک اساتذہ اور ملازمین کی تنخواہیں ادا نہیں کی جاتیں تب تک جامعہ بند رہے گی اور ہم بائیکاٹ جاری رکھیں گے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی پچھلے دو ماہ سے اساتذہ اور ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کر رہی اور سینیئر اساتذہ کے پروموشن آرڈر بھی تاخیر کا شکار ہیں۔ وائس چانسلر ہر ماہ 12 لاکھ روپے تنخواہ اور 5 لاکھ پروٹوکول کی مدد میں لے لیتا ہے لیکن باقی عملے کو تنخواہ نہیں دی جا رہی۔

اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ یونیورسٹی میں تعمیراتی کام تو ہو رہے ہیں لیکن جامعہ کے اساتذہ اور ملازمین کے لیے جامعہ اور حکومت کے پاس پیسے نہیں۔ سمیسٹر فیسوں میں اضافہ کی وجہ سے داخلوں میں کمی آئی کی جس سے یونیورسٹی کو نقصان پہنچایا گیا۔واضح رہے کہ گورنر بلوچستان نے وائس چانسلر جامعہ بلوچستان ڈاکٹر شفیق الرحمان کو مدت معیاد پوری ہونے کے بعد یونیورسٹی سے فارغ کیا تھا لیکن کورٹ نے ان کی مدت چار سال بتاتے ہوئے ان کی برطرفی کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دیا۔

جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطابق یونیورسٹی ایکٹ میں وائس چانسلر کی معیاد تین سال رکھی گئی ہے لیکن پھر بھی کورٹ نے ڈاکٹر شفیق کو چار سال کے معاہدے کی رو سے دوبارہ بحال کیا ہے۔ گورنر بلوچستان کی جانب سے وائس چانسلر کی برطرفی کے بعد پرو وائس چانسلر کو اضافی چارج دیا گیا تھا۔ بلوچستان یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق ایک ماہ میں امیدوار اپنے کاغذات گورنر ہاؤس میں جمع کروا سکتے ہیں۔ اس کے بعد گورنر ہاؤس کی سرچ کمیٹی تین نام فائنل کرے گا جن میں سے ایک نام کی منظوری وزیر اعلیٰ بلوچستان دیں گے۔ بہرحال اب اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے یقین دہانی کرادی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ امید ہے کہ جامعہ بلوچستان کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کیلئے حکمت عملی بنائی جائے گی تاکہ دوبارہ یہ معاملہ سر نہ اٹھائے۔