|

وقتِ اشاعت :   April 7 – 2024

گئے زمانے کی خوبصورت یادیں اب بھی دل کو بھاتی ہیں۔ جذبوں، رشتوں کی اقدار اور ان کی بھینی سی خوشبو جب بھی دماغ میں سما جاتی ہے تو سب کچھ اچھا لگنے لگتا ہے۔۔سکول جانے کے لیے ہمارے پاس سواریاں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ پون گھنٹہ کا سفر ہم بیدی گاؤں سے پیدل طے کیا کرتے تھے۔ بیدی تک کا سفر پھر بھی ارزاں سمجھا جاتا تھا۔ پیراندر اور تیرتیج کے طلبا کو سکول تک پہنچنے کے لیے سفر کی دہری اذیت سے گزرنا پڑتا تھا۔ ایک ہی ہائی سکول ہوا کرتا تھا۔ ماڈل ہائی سکول آواران۔۔ پیدل مسافت کی ان داستانوں کا ذکر اگر آپ ان راستوں کی زبانی سننا چاہیں تو شاید وہ بتا سکیں کہ کس کس زمانے میں کون کون ان گزرگاہوں پر سفر کرتا ہوا سکول جایا کرتا تھا اور سکول سے چھٹی کے بعد شدید سردی یا گرمی کا عذاب جھیلا کرتا تھا۔ ایک ہی سکول پورے علاقے کے لیے تھا۔
مجھے اپنا کلاس فیلو سخی داد یاد آتا ہے جو روز پیدل سکول آتا تھا۔ میں نے کبھی بھی اس کے ماتھے پر تھکن کے آثار نہیں دیکھے۔ دسویں جماعت تک وہ مسلسل کمٹمنٹ کے ساتھ سکول آیا کرتا تھا۔ نوندڑہ کا حمید رشتہ داروں کے ہاں قیام کرتا تھا ،دسویں جماعت تک اس نے صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
پھر بورڈ امتحان کے لیے ایک ہی امتحانی سینٹر ہوا کرتا تھا۔ مختلف علاقوں کے امتحانی امیدوار اسی سینٹر کا رخ کیا کرتے تھے۔ جھاؤ اور کولواہ کے امتحانی امیدوار رشتہ داروں کے ہا ں قیام کرتے یا پھرکرائے کا مکان لے کر امتحان میں شامل ہوا کرتے تھے۔ امتحانات پورے آب و تاب سے ہوا کرتے تھے۔ امتحانات کی اپنی چاشنی ہوا کرتی تھی۔ ممتحن کا رویہ آمرانہ ہوا کرتا تھا۔ پھر جو پاس ہوتے تھے تو اس پاس ہونے کا جو مزہ ہوا کرتا تھا وہ بعد کے ایام میں ہم نے کالج اور یونیورسٹی لیول پر نہیں دیکھا۔
وقت گزرتا چلا گیا آبادی بڑھتی چلی گئی دیہات شہر بن گئے اور آسانیاں گھر کی دہلیز پر آگئیں۔ پرائمری سکول مڈل بن گئے مڈل ،ہائی بن گئے اور بے شمار نئے پرائمری سکول قائم ہوئے۔ سواریاں اب ہر کسی کے دسترس میں آگئیں۔ مگر اس سب کے بیچ جو چیز ہم سے گم ہوا وہ تھا ماضی کا جذبہ اور علمی میدان سے لگاؤ۔
نئے تعلیمی سال کا آغاز ہو چکا ہے۔ کسی زمانے میں نئے تعلیمی سال کے آغاز پر محکمہ تعلیم اور شعبہ تعلیم پر کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے واک کا اہتمام کیا کرتے تھے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی رونقیں بھی ماند پڑ گئیں۔ گو نئے تعلیمی سال کا آغاز ہو چکا ہے مگر بچے داخلہ مہم کا حصہ نہیں بن پا رہے۔ اب ان بچوں کو سکول کا حصہ کس طرح بنائیں یہ ایک چیلنج بن چکا ہے۔ جو ربط کمیونٹی اور سکول کے درمیان ہونا چاہیے وہ ٹوٹ چکا ہے۔ پھر اس خلا کو مزید بڑھاوا شعبہِ زراعت جس پر یہاں کی آبادی معاشی طور پر انحصار کرتی ہے نے دیا ہے۔ ضرورتِ افرادی قوت نے پورے خاندان کو اسی کام پر لگا دیا ہے۔
گئے زمانے میں کھیتی باڑی کا نظام بارانی پانی پر ہوا کرتا تھا۔ بارانی پانی سے کھیتوں کو سیراب کیا جاتا تھا۔ فصل بویا جاتا تھا اس فصل کو نہ ہی روزانہ کی بنیاد پر پانی کی ضرورت پڑتی تھی اور نہ ہی اسپرے اور یوریا کی۔ کھیتی باڑی کا نظام سنبھالنے کے لیے خاندان کا ایک ہی فرد کافی ہوا کرتا تھا۔ پھر کٹائی کا سیزن آجاتا تو دور دراز کے لائی گر فصل کی کٹائی کے لیے آجاتے تھے۔ اس تمام صورتحال میں بچے آزاد ہوا کرتے تھے۔ پھر کیا ہوا کہ آبادی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ضروریات میں اضافہ ہوا۔ اسی اضافے نے کھیتی باڑی کا نظام بارانی پانی سے موڑ کر بورنگ سسٹم پر کر دیا۔ پھر کیا تھا کہ اس بورنگ کے نظام کو چلانے کے لیے پورے کے پورے خاندان کو اسی کام پر لگا دیا۔ اب اگر کسی کے دس بچے ہیں تو دیکھیں گے سب کے سب کھیتی باڑی سے منسلک ہیں یا یہ کہ بچہ چند ماہ تک سکول آگیا پھر والدین کو خیال آیا کہ بچے نے لکھ پڑھ کر کیا کرنا ہے اس نے بچے کو اپنے ساتھ کام پر لگا لیا۔ اب وہ بچہ ہے اور اس کا مستقبل۔۔ پھر سالہا سال فصل در فصل بونے اور کاٹنے پر اس کی زندگی صرف ہوتی ہے۔۔
ہمارے زمانے میں تعلیمی وظیفے کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہوا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ آٹھویں جماعت کا امتحان سکول اور بورڈ لیا کرتے تھے۔ آٹھویں جماعت کے امتحانات کی باری آئی تو سکول انتظامیہ نے کہا کہ کلاس کے دو طلبا کو سکول کی نمائندگی کے طور پر بورڈ کا امتحان دینا ہوگا۔ قرعہ فال میں میرا اور عرفان کا نام آیا۔ بورڈ کا امتحان دیا اور جب نتائج آئے تو نہ صرف ہم دونوں بورڈ کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ تعلیمی وظیفہ لینے میں کامیاب ہوئے۔ یہ وظیفہ ہمارے لیے کسی بڑے انعام سے کم نہیں تھا۔ اسی وظیفے نے دسویں جماعت تک ہمارے اسٹیشنری کی خریداری کا کام آسان کر دیا۔
موجودہ دور اپنے ساتھ آسانیاں لے آیا مستحق بچوں کے لیے احساس تعلیمی وظیفے کا اجرا کیا گیا۔ والدین بچوں کے تعلیمی وظیفے کے مد میں احساس پروگرام سے پیسے لے رہے ہیں مگر وہ تعلیمی وظیفے کو بچے کی تعلیم پر خرچ نہیں کر رہے بلکہ الٹا بچے سے کھیتی باڑی کا کام لیا جا رہا ہے۔
اب اس بچے کو تعلیم پر کیسے لگایا جائے یہ بہت ہی بڑا چیلنجنگ عمل ہے۔ مجھ سے ایسے کئی فیملی ممبرز ملتے ہیں جن کے بچے سکول نہیں آرہے یا آتے ہیں تو ریگولر نہیں ہیں ۔میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ ایسا کیوں کرتے ہو؟ جواب آتا ہے کہ بچے ان کا کہا نہیں مانتے۔ ارے بھئی کھیتی باڑی میں آپ کا ہاتھ بٹانے یا مویشیاں چرانے کے معاملے میں آپ کا حکم نامہ ٹال نہیں سکتے تو سکول جانے کے لیے آپ کی بات کیسے رد کر سکتے ہیں۔ جو بات مجھے نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ہر چیز کو مادی فائدے کے تناظر میں دیکھتی ہے علمی اور شعوری اہمیت کو غیر اہم سمجھتی ہے۔ اب اس علم کی اہمیت کو دیہاتی نظام میں کس طرح منتقل کیا جائے اس کے لیے ہماری نوجوان نسل جو کہ یونیورسٹیوں سے فارغ ہیں وہ اپنے اپنے علاقوں کے لیے وقت نکالیں۔ زیادہ نہ سہی تو داخلہ مہم کے دوران کمیونٹی کو آگاہ کریں تبلیغ کریں۔ اس حوالے سے مذہبی مبلغین کا کردار بھی اہم ہے اگر وہ جمعے کی اجتماع میں تعلیم کی اہمیت اور بچوں کو سکول میں داخلہ دلوانے کی آگاہی دیں۔ اس تبلیغی سلسلے میں تمام بچے نہ سہی اگر خاندان کا ایک ایک بچہ بھی سکول جانے لگے تو سمجھو کہ ہم نے اپنا حق ادا کر دیا۔