|

وقتِ اشاعت :   April 8 – 2024

کوئٹہ :وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے بلوچستان میں بینظیر بھٹو اسکالرشپ پروگرام کے اجرا کا اعلان کرتے ہوئے دنیابھر کی 200 ٹاپ ٹین جامعات میں پی ایچ ڈی اسکالرشپ اور شہدا کے بچوں ،

اقلیتوں اور ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لئے خصوصی تعلیمی وظائف کی منظوری دے دی ہے وزیر اعلی نے بلوچستان کے ہر ضلع سے میٹرک میں دس نمایاں پوزیشن کے حامل طالب علموں کو بھی اعلی تعلیمی اسکالرشپ دینے کا اعلان کیا ، اس پروگرام کے تحت جدید سائنسی علوم میں پی ایچ ڈی کے خواہشمند بلوچستان کے ہر طالب علم کو اسکالرشپ دی جائے گی پیر کو یہاں وزیر اعلی سیکرٹریٹ میں بلوچستان انڈومنٹ فنڈ کے جائزہ اجلاس میں وزیر اعلی بلوچستان نے صوبے کی تاریخ کے پہلے اعلی تعلیمی اسکالرشپ بینظیر بھٹو اسکالر شپ پروگرام کے اجرا کی اصولی منظوری دیتے ہوئے متعلقہ حکام کو ضروری کارروائی 15 جولائی تک مکمل کرنے کی ہدایت کی

، اجلاس میں چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان سمیت اعلی حکام نے شرکت کی وزیر اعلی بلوچستان نے ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ کے تحت پہلے سے جاری مختلف اسکالرشپ پروگرامز میں شفافیت کا جائزہ لینے کے لئے تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کی ہدایت کی اور پروگرام کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کو افرادی قوت حسب ضرورت محدود رکھنے کی ہدایت کی اجلاس کے بعد اپنے ایک پیغام میں وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ الحمداللہ بلوچستان میں بینظیر بھٹو اسکالرشپ تعلیمی کفالت کے تاریخی پروگرام کی منظوری دے دی گئی ہے پی ایچ ڈی کی عمومی اسکالرشپ کے علاوہ محکمہ داخلہ سے رائج الوقت پالیسی کے تحت شہید قرار دئیے گئے شہدا کے بچوں کے نرسری سے اعلی تعلیم تک تمام تعلیمی اخراجات صوبائی حکومت برداشت کرے گی میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ تمام شہدا کے بچوں کو ریاست والد کی طرح دیکھے گی اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے گا

وزیر اعلی بلوچستان نے محکمہ داخلہ کو شہید قرار دئیے جانے والے تمام افراد کے اعداد و شمار اکٹھا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ضروری کارروائی جلد از جلد شروع کرنے کی ہدایت کی اجلاس میں بینظیر بھٹو اسکالرشپ پروگرام کے تحت بلوچستان میں اقلیتوں اور ٹرانس جینڈر کے لئے نرسری سے ماسٹر تک سالانہ پچاس پچاس اسکالرشپ دینے کا فیصلہ بھی کیاگیا، اجلاس میں بلوچستان ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر زکریا خان نورزئی نے بریفنگ دی ، قبل ازیں وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیر صدارت صوبے میں گورننس کی بہتری کیلئے قائم اصلاحاتی کمیٹی کا پہلا اجلاس پیر کو یہاں وزیر اعلی سیکرٹریٹ میں منعقد ہوا اجلاس میں چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات و منصوبہ بندی عبدالصبور کاکڑ، پرنسیپل سیکرٹری عمران زرکون، اسپیشل سیکرٹری اسفندیار بلوچ، چئیرمین بلوچستان ریونیو اتھارٹی نور الحق بلوچ، سیکرٹری آئی ٹی ایاز مندوخیل ، سئنیر افسر غلام علی بلوچ، ریٹائرڈ بیورو کریٹ محفوظ علی خان سمیت دیگر اعلی حکام موجود تھے اجلاس میں گورننس کی بہتری کیلئے نتیجہ خیز اقدامات اور ان پر عمل درآمد کا ٹائم فریم مرتب کیا گیا جبکہ گھوسٹ اور غیر حاضر ملازمین کے محاسبہ کے لئے آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجی متعارف کرانے کا فیصلہ بھی کیا گیا جس کا آغاز یونیورسٹی آف بلوچستان، بولان میڈیکل کمپلیکس اور سول سنڈیمن اسپتال کوئٹہ سے کیا جائے گا وزیر اعلی نے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کو پائلٹ پروجیکٹ تیار کرنے کی ہدایت کی اجلاس میں سی ایم ڈی یو کو فعال کرنے کے لئے نجی شعبے سے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا

اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعلی نے کمیٹی میں شامل ماہرین کو متعلقہ شعبوں کی بہتری کے لئے جامع سفارشات مرتب کرنے کا ٹاسک دیا اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ گورننس کی کمزوریوں کے باعث عوام مشکلات سے دوچار ہیں عوام اور حکومتی محکموں کے مابین اعتماد کا فقدان ہے عوام کا ریاست پر اعتماد بحال کرنا ضروری ہے وزیر اعلی نے کہا کہ گڈ گورننس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے جب ایک نوجوان لاکھوں روپے میں نوکری خریدے گا تو نظام پر اس کا اعتماد کیسے برقرار رہے گا وزیر اعلی نے کہا کہ سالانہ تیس ہزار جوانوں کو ہنر مند بناکر بیرون ملک روزگار دینا چاہتے ہیں گورننس کی بہتری کیلئے واضح سمت کا تعین کرنا چاہتے ہیں آج کئے گئے بڑے فیصلوں کے نتائج آئندہ ایک دہائی تک آنا شروع ہوجائیں گیاصلاحتی کمیٹی کو ویژن دینگے کمیٹی درست سمت کا تعین کرے ، وزیر اعلی نے کہا کہ پینشن بل اور غیر ضروری اخراجات پر قابو نہ پایا گیا تو آئندہ دس سال بعد ہمارے پاس بنیادی سہولیات کو برقرار رکھنے کے لئے وسائل نہیں ہوں گے وزیر اعلی نے کہا کہ اصلاحات کے ساتھ صوبائی حکومت کی ترجیحات امن و امان کا قیام صحت و تعلیم کے شعبوں میں نمایاں بہتری اور جوابدہی کا موثر عمل ہے جبکہ روزگار کے مواقع فراہم کرکے بلوچستان کے بڑے مسائل کا حل ممکن ہے تاہم ہر جوان کو سرکاری ملازمت فراہم نہیں کی جاسکتی، اس کے لئے نوجوانوں کو ہنر مندی کی تعلیم دینا ہوگی تاکہ بیرون ملک جاکر وہ نہ صرف اپنے خاندان بلکہ ملک کے لئے زر مبادلہ بھی بھیج سکیں۔