|

وقتِ اشاعت :   April 18 – 2024

مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ ایران نے گزشتہ دنوں اسرائیل کے خلاف ڈرون اور میزائلوں سے حملہ کیا۔اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے جنگی امور سے متعلق اپنی کابینہ کو طلب کیا اور بتایا کہ ملک کے ’دفاعی نظام‘ کو حملوں سے نمٹنے کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے میں اس کے دو سینیئر فوجی کمانڈروں کی ہلاکت کے بعد ایران نے جوابی کارروائی کی بات کی تھی اور ایران نے قونصل خانے پر حملے کا الزام اسرائیل پر لگایا تھا۔

اسرائیلی وزیراعظم نے ایران کو بھرپور جواب دینے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ کسی بھی وقت اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر اسرائیل نے حملہ کیا تو مشرق وسطیٰ میں سیاسی و معاشی عدم استحکام پیدا ہوگا جس سے پڑوسی ممالک متاثر ہونگے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان طویل سرحد ہے اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑسکتے ہیں۔ پاکستان پہلے سے ہی معاشی حوالے سے کمزور حالت میں ہے جبکہ افغانستان اور بھارت سے دراندازی کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال بھی بہتر نہیں۔ اندرون خانہ معاشی و سیاسی مسائل نے بھی پاکستان کو متاثر کیا ہے اس لئے اس جنگ کے بڑھنے سے پاکستان زیادہ متاثر ہوگا۔

بہرحال پاکستان کی جانب سے حکومتی و عسکری قیادت کشیدگی کے مکمل خلاف ہیں اور اسے مزید نہ بڑھنے پر متفق ہیں جبکہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی بھرپور مذمت کی گئی ہے اور فوری جنگ بندی کا بھی مطالبہ کیا گیاہے۔ بہرحال خطے میں اسرائیل اور ایران کشیدگی کے پیش نظر حکومت و عسکری قیادت کو پلان مرتب کرنا ہوگا تاکہ پاکستان متاثر نہ ہو، اس جنگ سے تباہی کے سواء کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اسرائیلی وزیراعظم جارحیت کے ذریعے غزہ سے رفع تک اپنے قبضے کو طول دینے کے ساتھ وسائل پر قبضہ کرناچاہتا ہے جو اسرائیل کے اہم مقاصد میں شامل ہے۔ اقوام متحدہ اور اسلامی ممالک کی جنگ بندی کی کوششیں جاری تو ہیں مگر اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی اور قبضہ گیریت کو طول دینے کیلئے وحشیانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے جو آنے والے وقت میں خطے سمیت عالمی معیشت اور امن کیلئے تباہ کن نتائج برآمد کرسکتا ہے۔