انفراسٹرکچر مکمل طورپر تباہ ہوکر رہ گیا، لوگ بے گھر ہوئے، زمینداروں کی کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں ہر طرف تباہی ہی تباہی دکھائی دی جب کہ اب تک بلوچستان کے سیلاب متاثرین کی بحالی ممکن نہ ہوسکی، اس کا اعتراف خود پی ڈی ایم اے بلوچستان کے ڈی جی جہانزیب خان نے کیا ہے کہ 2022 کے سیلاب متاثرین کو فنڈز نہ ہونیکی وجہ سے دوبارہ آباد نہیں کیا جاسکا، گھروں اور کمروں کے بجائے خیموں میں رہائش مستقل حل نہیں ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو میں جہانزیب خان نے کہا کہ سیلاب سے ہمارا نقصان لاکھوں ، کروڑوں، اربوں نہیں کھربوں کا ہوا تھا، یہ نقصان پورا کرنا پی ڈی ایم اے یا بلوچستان حکومت کے بس میں نہیں۔متعلقہ محکموں کے غیر حاضر افسران سے متعلق کمشنر کوئٹہ اور وفاق کو خط لکھ چکے ہیں، سیلاب میں سول ورکس اور مشینری کی عدم دستیابی کا بھی مسئلہ اٹھایا ہے، ہائی ویز کھولنے میں کوتاہی کی شکایت بھی صوبائی حکومت نے وفاق کو کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ خو ش خبری ہے کہ ورلڈ بینک نے متاثرین کی آباد کاری کے لیے فنڈز دے دیا ہے، متاثرین کی آباد کاری کا منصوبہ پی ڈی ایم اے کے پاس نہیں، ایری گیشن اور سول ورکس کا کام پی ڈی ایم اے کے کرنے میں حرج نہیں ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ بلوچستان حکومت تو کجا وفاقی حکومت کے پاس بھی اتنی رقم نہیں کہ اتنی بڑی آفت سے ہونے والی تباہی کا ازالہ کرے ،اس کیلئے عالمی ڈونیشن کی ضرورت ہے جس کیلئے سابقہ حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینی چاہئے تھی ۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے کا اعتراف سابقہ بلوچستان حکومت اور وفاقی حکومت کی نااہلی کو ثابت کرتا ہے کہ دونوں حکومتوں نے سیلاب سے ہونے والی تباہی کے بعد بحالی کے کام کے حوالے سے عالمی ڈونرز کانرنفس منعقد نہیں کی جس سے سیلاب متاثرین کی بحالی ممکن ہوتی اور ان کے نقصانات کا ازالہ کسی حد تک ممکن ہوپاتا۔ 2022 کے سیلاب زدہ علاقوں کی مکمل رپورٹ بھی سامنے نہیں آئی کہ کتنے اضلاع میں بہت زیادہ نقصانات ہوئے اگر رپورٹ مرتب کی جاتی تو آسانی سے اعداد و شمار کے مطابق معلومات کی بنیاد پر عالمی برادری کے سامنے نقصانات کی مفصل رپورٹ سامنے رکھ کر بحالی کیلئے مالی امداد کی بات کی جاتی۔بہرحال 2022 کا عذاب تھما ہی نہیں ہے کہ بلوچستان میں رواں سال پھر بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچاہی ہے اس کی بھی تفصیلات مکمل طور پر اب تک سامنے نہیں آئیں، گوادر سمیت مختلف اضلاع بری طرح متاثر ہیں جن کی بحالی کا کام بھی سست روی کا شکار ہے متاثرین فریاد کر کرکے تھک چکے ہیں۔موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ نقصانات کی تفصیلات ہر ضلع کے ذمہ داران سے طلب کریں تاکہ تخمینہ لگایا جاسکے کہ کتنے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں، بحالی کیلئے کتنی رقم درکار ہے اس کی بنیاد پر عالمی ڈونرز کانفرنس منعقد کی جائے تاکہ متاثرین کو ریلیف فراہم کیا جاسکے۔