جغرافیائی اور اسٹرٹیجک حوالے سے بلوچستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ 70 سال سے زائد عرصہ بیت گیا مگر بلوچستان مسئلے کا سیاسی حل نکالنے میں کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہوسکی جس کی ایک بڑی وجہ واضح روڈ میپ اور میکنزم کا نہ ہونا ہے ۔
وفاقی حکومتیں جب اقتدار سنبھالتی ہیں تو لازماً بلوچستان مسئلے کے سیاسی حل پر مذاکرات کی بات کرتے ہیں مگر یہ واضح نہیں کیا جاتا کہ مذاکرات کس سے اور کیسے کرنے ہیں۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں اسٹیک ہولڈرز تو ہیں مگر ان کو کبھی بھی مکمل اختیارات نہیں دیئے گئے کہ وہ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھاسکیں اور ان سے مذاکراتی فارمولے پرملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں، عسکری قیادت، وکلاء ، سول سوسائٹی، صحافتی حلقے، انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ گرینڈ کانفرنس منعقد کی جائے اور سب سے تجاویز اور رائے لی جائے تاکہ ایک حکمت عملی کے ساتھ مرحلہ وار مذاکراتی عمل کو ایک کمیٹی کے ذریعے آگے بڑھایا جائے جس میں ان کی نمائندگی شامل ہو۔
بلوچستان کامسئلہ صرف تقاریر گلے شکوئوں سے حل نہیں ہوگا بلکہ مسئلے کی بنیاد کو دیکھنا ہوگا کہ بلوچستان کے حالات بہتری کی طرف کیوں نہیں بڑھتے۔ ماضی میں بھی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں مگر ان کی غیر فعالیت کی وجہ سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت سے قبل بھی مشرف دور میںڈائیلاگ کرنے کی کوشش کی گئی جس پر پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی مگر کمیٹی مذاکرات میں ناکام رہی ،جس کے بعد چوہدری برادران کو مشرف نے ثالثی کا کردار ادا کرنے کیلئے مینڈیٹ دیا ،پھر جب کچھ پیش رفت ہونے لگی تو یکدم حالات کوخراب کیا گیاجس سے یہ عمل بھی رک گیا۔
بلوچستان کی چار جماعتی اتحاد جمہوری وطن پارٹی، حق توار، بی این پی اور نیشنل پارٹیپر مشتمل تھی جو 2004ء کے دوران بلوچستان میں سیاسی مسائل، ساحل وسائل پر اختیارات پرکے لیے تحریک چلارہی تھی جس نے وفاق کے سامنے اپنے مطالبات بھی رکھے مگر مشرف کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ بہرحال حالات خراب ہوتے گئے نواب اکبر خان بگٹی کی 26 اگست 2006ء میں شہادت کے بعد سیاسی ڈائیلاگ کا سلسلہ تھم گیا اور جنگی صورتحال پیدا ہوگئی۔ گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے سیاسی ڈائیلاگ کیلئے کمیٹی بنانے کی بات کی ،اس کمیٹی میں کون شامل ہونگے اس کاابھی تک کوئی اعلان نہیں ہوا مگر یہ ایک اچھی بات ہے کہ سیاسی ڈائیلاگ کو دوبارہ شروع کیا جائے جس میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں، عسکری قیادت، وکلاء ، سول سوسائٹی، صحافتی حلقے، انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو لازمی شامل کیا جائے تاکہ بلوچستان کا دیرینہ سیاسی مسئلہ باہمی اتفاق رائے سے حل ہوسکے۔
لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب میں اخترمینگل کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی لوگوں اور سیاسی مذاکرات کے ذریعے حل ہو گا، غیر متنازع اور جرات مند لوگ بلوچستان کا مسئلہ حل کرائیں۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان نے کہا بلوچستان کی سیاست میں وہاں کے قوم پرست اسٹیک ہولڈر ہیں تمام زیادتیوں کے باوجود ہمیں سیاسی ڈائیلاگ کی طرف آنا چاہیے،سب کو اپنے اپنے موقف میں نرمی لانی چاہیے۔
رہنما پیپلزپارٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا ہماری ریاست کیلئے سیاسی ڈائیلاگ بے حد ضروری ہے، ملکی مسائل کے حل کا واحد راستہ ڈائیلاگ ہے، سیاسی لوگوں کو آپس میں بات چیت کرناہوگی۔ بہرحال یہ باتیں ماضی میں بھی مختلف فورمز پر ہوچکی ہیں لیکن اس پر عملی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے سیاسی راستہ ضرور نکلے گا۔
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں بلوچستان مسئلے کو پھر سے اٹھانا اور وفاق کی توجہ اس طرف دلانے سے یہی امید و توقع ہے کہ بلوچستان کے سیاسی مسئلے کو حل کی طرف لے جانے کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے مثبت پیش رفت کی جائے گی تاکہ بلوچستان مسئلہ جلد حل ہوسکے۔