پاکستان میں جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے، معاشی حوالے سے اس کا پہلا بیانیہ یہی ہوتا ہے کہ قرض سے ملک نہیں چل سکتا بلکہ بہترین معاشی روڈ میپ اور سیاسی استحکام سے ہی ملک معاشی بحران سے نکل سکتا ہے ۔
لیکن دہائیاں گزر گئیں مگرکسی بھی حکومت نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کرلانگ ٹرم پالیسی نہیںبنائی جو معیشت کی بہتری اور سیاسی استحکام کی بنیاد بن سکے ۔ حکومت سنبھالتے ہی حکمران قرض لینے کیلئے آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت دوست ممالک سے رجوع کرتے ہیں حالانکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، معدنی وسائل سے بھی مالا مال ہے یہاںوہ تمام وسائل موجود ہیں جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے معیشت کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔
پیداواری صلاحیت بڑھانے، صنعتیں لگانے، پرائیوٹ سیکٹر کو وسعت دینے سمیت دیگر ایسے اقدامات سے ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکتی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوسکتا ہے مگر اس کیلئے معاشی اصلاحات اور ایک واضح روڈ میپ جوطویل مدت کے لیے ہو کوئی بھی حکومت آئے معاشی پالیسی میں چھیڑ چھاڑ نہ کرے، اسے تسلسل کے ساتھ چلائے، سیاسی اختلافات پر ملکی مفادات کو فوقیت دی جائے تو 10 سال کے اندر ہی معیشت کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہونگے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں معاشی پالیسی پر ایک نکاتی ایجنڈے پر سیاسی جماعتیں بیٹھنے کو تیار نہیں ۔
اقتدار کی رسہ کشی کی وجہ سے ملک سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار رہتا ہے، تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے موجودہ حالات میں تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی و معاشی استحکام کے لیے ایک پیج پر آنا ہوگا وگرنہ قرض سے ہی ملک چلتا رہے گا،اور ہر نئی حکومت آتے ہی محض معاشی اصلاحات اور بہتری کے متعلق بیانات ہی دیتی رہے گی۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا دیگر وفاقی وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ملک خیرات سے نہیں ٹیکس سے چلتے ہیں اور یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم صرف ایک طبقے پر ٹیکس لاگو کردیں۔
9 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی ریشو سے ملک کیسے چل سکتا ہے؟ ملک خیرات نہیں ٹیکس دینے سے چلے گا، خیرات سے اسکول اور اسپتال تو چل سکتے ہیں مگر ملک صرف ٹیکس سے ہی چلتا ہے۔انہوں نے کہا کہ سمز بند کرنے والے معاملے پر غیر ملکی سرمایہ کار کیسے ناراض ہوسکتے ہیں، جو 10 ہزار موبائل کا بل دے رہے ہیں وہ ٹیکس ریٹرن فائل کیوں نہیں کرسکتے،
ملک چلانے کیلئے ٹیکس کے نظام کو مستحکم کرنا ضروری ہے، تنخوا ہ دار طبقے پر 50 ہزار سے ٹیکس لاگو ہوجاتا ہے اور یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم صرف ایک طبقے پر ٹیکس لاگو کردیں۔وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام پاکستان کے فائدے کیلئے ہے، اگلے7 سے 10 دن میں آئی ایم ایف کا مشن پاکستان آئیگا جس میں آئندہ پروگرام پر بات ہوگی۔محمد اورنگزیب نے مزید کہا کہ مہنگائی اب 17 فیصد پر آچکی جو بتدریج مزید کم ہوگی جب کہ جولائی اگست تک پالیسی ریٹ بھی نیچے آئیگی، ہمیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی طرف جانا چاہیے اور ہمیں اپنے اخراجات کو کم کرنا ہے، ٹیکس اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہیں، غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنشن کے اخراجات کو قابو میں لانے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے اور بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات ہمارے ایجنڈے کا حصہ ہیں جب کہ ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن پر بھی کام جاری ہے۔ بہرحال نوبت خیرات تک کیسی پہنچی ہے یہ حکمرانوں کو سوچنا چاہئے، ٹیکس کا مسئلہ بھی دیرینہ ہے مگر کم تنخواہ دار طبقہ پر ٹیکس لگانا زیادتی ہے اگر 50 ہزار تنخواہ دار پر بھی ٹیکس لاگو کیا جائے گا تو وہ مہنگائی میں اپنے اخراجات کیسے پورا کرسکتا ہے، مہنگائی میں کمی کا اندازہ عام مارکیٹ میں خریداری سے لگایا جاسکتا ہے جہاں ہر چیز مہنگی ہے ،اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، مہنگی بجلی اور گیس سے پہلے سے ہی شہری عاجز آچکے ہیں ان کا گزارا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ اگر ٹیکس نیٹ میں لانا ہے تو بڑے سرمایہ داروں اور شخصیات کو لایا جائے جن کے اثاثے بے تحاشہ ہیں مگروہ ٹیکس نہیں دیتے، یہ سب ریکارڈ پر موجود ہے ہر سخت معاشی پالیسی سے عوام ہی متاثر ہوتی ہے اب پنشن لینے والے بزرگ شہری، بیوہ کو کتنی رقم ملتی ہے جس میں مزید کٹوتی کی جائے لہذا ٹیکس اصلاحات ایسی لائی جائیں جن سے عام شہری براہ راست متاثر نہ ہوں۔ ملک کی معیشت بہتر ہوسکتی ہے اس کیلئے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے اور اپنے وسائل کو بھی استعمال میں لانا ہوگا تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر معاشی پلان مرتب کرنے پر زور دیا جائے اور اس کا راستہ بات چیت ہے کہ میثاق معیشت پر سب اکٹھے ہوکر ملک کے بارے میں سوچیں جو اس وقت معاشی تنزلی کا شکار ہے۔