ملک بھر میں شدید گرمی کے دوران اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ کمرشل اور گھریلو صارفین شدید پریشانی سے دوچار ہیں جبکہ بلوچستان کے زمیندار غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف بلوچستان اسمبلی کے سامنے سراپا احتجاج ہیں۔
زمیندار تنظیموں کا کہنا ہے کہ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے ہماری فصلوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ بہرحال بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے کوئی بھی ریلیف صارفین کو فراہم نہیں کی جارہی بلکہ بجلی مزید مہنگی کی جارہی ہے۔
ایک تو فی یونٹ مہنگی بجلی ،اوپر سے اوور بلنگ نے صارفین کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔ بجلی بلوں کی ادائیگی کے باوجود بھی بجلی فراہم نہ کرنا سراسر زیادتی ہے۔ گزشتہ دنوں اوور بلنگ کا انکشاف سامنے آیا تھا کہ کس طرح سے بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے اندر موجود آفیسران صارفین کے ساتھ زیادتی کررہے ہیں یہ سلسلہ کئی برسوں سے چل رہا ہے اور اس تمام تر عمل میں صارفین مالی حوالے سے براہ راست متاثر ہورہے ہیں ،توانائی بحران کا مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے مگر ہر 3 ماہ بعد بجلی سپلائی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے۔اب ایک بار پھر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے مہنگائی کے مارے عوام پر بجلی بم گراتے ہوئے اسے مزید مہنگی کردی ہے۔بجلی کی قیمتوں میں 2 روپے 83 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافہ مارچ کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ایک ماہ کے لیے کیا گیا ہے۔بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق رواں ماہ کے بجلی بلوں پر ہوگا۔بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق لائف لائن اور کے الیکٹرک صارفین پر نہیں ہوگا۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی درخواست سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے دی تھی جس کے بعد نیپرا نے اضافے کا اعلان کیا ہے۔ اب اس طرح کے اقدامات سے کیا عوام حکومت سے خوش ہوگی۔ ہر روز حکومتی نمائندگان عوام کو ریلیف دینے کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مشکل وقت گزرنے والا ہے عوام کو مہنگائی سمیت دیگر مسائل سے نجات دلاتے ہوئے بنیادی سہولیات فراہم کی جائینگی تاکہ عوام کے دیرینہ مشکلات میں کمی آسکے مگر زمینی حقائق اور اقدامات حکومتی دعوؤں کے برعکس ہیں۔ خدارا عوام کو اگر ریلیف فراہم نہیں کرسکتے تو مزید ان پر مہنگائی کا بوجھ نہ ڈالا جائے جو ان کیلئے مزید مسائل کا سبب بنے۔