|

وقتِ اشاعت :   May 12 – 2024

گوادر کے ساحل پر گزشتہ تین دہائیوں سے غیر قانونی ٹرالنگ کا سلسلہ جاری ہے جسسے مقامی ماہی گیر معاشی حوالے سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔

ان کاواحد ذریعہ معاش ماہی گیری سے ہے مگر غیر قانونی ٹرالنگ نے ان سے واحد ذریعہ روزگار بھی چھین لیا ہے۔

حکومتی سطح پر سخت اقدامات نہ اٹھانے کی وجہ سے غیر قانونی ٹرالر مافیانہ صرف بڑے پیمانے پر نایاب مچھلیوں کا شکار کررہے ہیں بلکہ ان کی نسل کشی بھی کر رہے ہیں۔

مکران ساحل سمندر کے نایاب مچھلیوں کی دنیا بھر میںمانگ ہے اور ان نایاب مچھلیوں کی قیمت اربوں روپے بنتی ہے۔

غیر قانونی ٹرالنگ میں بڑے بڑے مافیاز ملوث ہیں کیونکہ انتظامی آفیسران اور بعض اہم شخصیات کی ملی بھگت سے گوادر کے ساحل پر یہ غیر قانونی عمل جاری ہے۔

مقامی ماہی گیروں کا شکوہ ہے کہ حکومتوں کی غیر سنجیدگی اور موثر حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے یہ غیر قانونی عمل دہائیوں سے جاری ہے جس سے ہماری معاش متاثر ہورہی ہے۔

اب ایک بار پھر بلوچستان اسمبلی میں گوادر کے ساحل پر غیر قانونی ٹرالنگ کے خلاف قرار داد رپیش کی گئی جسے رکن اسمبلی عبد المجید بادینی نے پیش کیا جس پر حکومت اور اپوزیشن اراکین نے غیر قانونی ٹرالنگ کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے پر زور دیا اور اپنی تجاویز بھی دیں۔

بہرحال یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ اسمبلی فلور پر اس معاملے پر بحث کی گئی ہے ماضی میں بھی متعدد بار غیر قانونی ٹرالنگ کے تدارک اور مقامی ماہی گیروں کے معاش کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی مگر اس کے باوجود بھی بلوچستان کے ساحل پر مافیا کا راج ہے۔

سندھ کے ٹرالرزسمندر کو تاراج اور سمندری حیات کی نسل کشی میں مصروف ہیں ،غیر قانونی فشنگ سے نایاب آبی حیات کی بے دردی سے نسل کشی ہورہی ہے جس کا تخمینہ سالانہ اربوں روپے بنتا ہے۔

غیر قانونی فشنگ سے ماہی گیر تو براہ راست متاثر ہورہے ہیں مگر حکومتوں کی جانب سے غیر قانونی فشنگ کے خلاف سخت کریک ڈاؤن نہ کرنے سے مقامی معیشت بھی متاثر ہورہی ہے۔

ساحل پٹی پر رہائش پذیر مقامی لوگوں کا معاش ماہی گیری کے علاوہ کچھ نہیں ہے جس سے وہ اپنا گھر چلاتے ہیں ۔

بلوچستان کے ساحل پر مغربی نایاب آبی حیات موسم سرما کے دوران آتے ہیں اور یہاں انڈے دیتے ہیں جس کے بعد نایاب آبی حیات کی افزائش بڑے پیمانے پر ہوتی ہے جس کی دنیا بھر میں ڈیمانڈ ہے، اگر ان کا تحفظ کیا جائے اور حکومتی سطح پر ساحل کو محفوظ بناتے ہوئے نایاب آبی حیات کی نسل کشی کو روکنے کیلئے اقدامات اٹھاتے ہوئے فشنگ کے شعبے کو اہمیت دی جائے تو بلوچستان کی معیشت بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ کاروبار کو وسعت ملے گا،روزگار کے مواقع پیدا ہونگے ،برآمدات کے ذریعے بڑی آمدنی بلوچستان حکومت کو مل سکتی ہے۔

بہرحال بلوچستان اسمبلی میں قرارداد تو منظور کرلی گئی مگر غیر قانونی فشنگ کو روکنے، ماہی گیری کے شعبے کی بہتری کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی ماہی گیروں کا دیرینہ مسئلہ بھی حل ہو جائے اور بلوچستان کی معیشت کو بھی اس کا فائدہ پہنچے۔