ملک میں سیاسی بے یقینی کی صورتحال میں فی الحال کوئی ٹھہراؤ دکھائی نہیں دے رہا، خاص کر پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ کا سلسلہ جاری ہے اور پی ٹی آئی نے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ملکر گرینڈ الائنس بنایا ہے اور اس پلیٹ فارم سے تحریک چلارہی ہے۔
دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام بھی حکومت کے خلاف صف آراء ہے لیکن اپوزیشن اتحاد میں براہ راست شامل نہیں ہے مگر گزشتہ دنوں سربراہ جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمان نے بانی پی ٹی آئی سے مذاکرات کا اشارہ دیتے ہوئے کہاتھا کہ میں نے یہودی ایجنٹ سیاسی بنیاد پر کہا تھا اسے ایک سیاسی بیان کے طور پر لینا چاہئے اور یہ بھی کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے بات چیت ہوسکتی ہے ہم سیاسی لوگ ہیں بات چیت پر یقین رکھتے ہیں شاید مستقبل میں جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان بات چیت ہو اور جمعیت بھی اپوزیشن اتحاد کا حصہ بن جائے۔ چونکہ سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ماضی کے حریف آج دوست بھی بن جاتے ہیں جس کی گواہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے ۔
ایک اور مسئلہ خیبرپختونخواہ میں اس وقت شدت کے ساتھ سر اٹھارہا ہے ،پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اور پیپلز پارٹی کے رہنماء کے پی کے گورنر فیصل کریم کنڈی کے درمیان کشیدگی چل رہی ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ نے بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی کو بھی دھمکی دے رکھی ہے خیبرپختونخواہ حساس صوبہ ہے جہاں سیکیورٹی کے مسائل بہت زیادہ ہیں ،دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہورہے ہیں۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے گورننس سمیت سیکیورٹی پر توجہ کم اداروں، اسلام آباد اور گورنر ہاؤس کے پی کے پر چڑھائی کرنے کی باتیں اور ماحول کو کشیدہ رکھنے پر ہی ساری توانائی صرف کر رکھی ہے اب سیاسی عدم استحکام سے معاشی استحکام کیسے آسکتا ہے جس کا ذکر اسٹیٹ بینک نے بھی کیا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ غیریقینی سیاسی صورتحال ملکی معیشت پر منفی اثرات ڈال رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے مالی سال 2024 کی پہلی ششماہی رپورٹ بعنوان’پاکستانی معیشت کی کیفیت‘ منگل کوجاری کی جو جولائی تا دسمبر مالی سال 2024 کے اعدادوشمار کے تجزیے پر مشتمل ہے۔
رپورٹ کے مطابق حقیقی اقتصادی سرگرمیوں میں گزشتہ سال کے سکڑائو کے برعکس معتدل بحالی ہوئی۔ پہلی ششماہی میں ملک کے معاشی حالات بہتر ہوئے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ عارضی انتظام (ایس بی اے) نے بیرونی کھاتے پر دبائو کم کرنے میں مدد ملی تاہم معیشت کو بدستور ساختی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
مرکزی بینک کے مطابق جو بڑے مسائل درپیش ہیں ان میں محدود بچتیں، طبیعی اور انسانی سرمائے میں پست سرمایہ کاری، پست پیداواریت، جمود کا شکار برآمدات، ٹیکس دہندگان کی کم تعداد اورسرکاری شعبے کے کاروباری اداروں کی نا کارکردگی شامل ہیں۔اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ غیریقینی سیاسی صورتحال ملکی معیشت پر منفی اثرات ڈال رہی ہے، سیاسی اور پالیسی کی غیر یقینی صورتِ حال میں بہتری لاکر اور مزید مالیاتی یکجائی سے قلیل مدت میں مہنگائی کو تیزی سے کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
بہرحال سیاسی استحکام اس صورت میں آسکتا ہے جب اپوزیشن کی جانب سے لچک کا مظاہرہ کیا جائے مگر ایسا کوئی سیاسی ماحول فی الحال قومی اسمبلی میں بنتا دکھائی نہیں دے رہا ۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کسی ایک بھی نکتہ پر بات چیت کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ اب بات چیت کیلئے راستہ کیسے کھلے گا اس پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ پی ٹی آئی یہ بات کہہ چکی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی بات چیت کرے گی حکومت کے ساتھ نہیں جبکہ عسکری قیادت نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ان کا سیاسی جماعتوں کے درمیان معاملات سے کوئی تعلق نہیں وہ اپنے آئینی مینڈیٹ کے اندر رہتے ہوئے کام کرینگے سیاسی جماعتیں خود آپس میں بیٹھ کر بات چیت کرکے مسائل کا حل نکالیں۔
لہذا یہ اب سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ سیاسی استحکام کیلئے سیاسی اختلافات کو ایک حد تک رکھیں جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں خاص کر اپوزیشن کو ایک جگہ آکر ملکی مفاد میں حکومت سے بات چیت کرنی چاہئے تاکہ ملک میں معاشی و سیاسی استحکام پیدا ہوسکے اور ملک بحرانات سے نکل سکے۔