|

وقتِ اشاعت :   May 18 – 2024

بلوچستان میں جب بارشیں نہیں ہوتیں تو بیشتر اضلاع خشک سالی کی لپیٹ میں آجاتے ہیں جس سے غذائی قلت، زراعت متاثر، مال مویشیوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچتا ہے اور حکومتی سطح پر مصنوعی بارشوں کے دعوے کئے جاتے ہیں مگر عملا کچھ نہیں کیا جاتا۔

بلوچستان میں جب بارشیں بہت زیادہ ہوتی ہیں تو ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پانی ذخیرہ ہونے کی بجائے ضائع ہو جاتا ہے۔

دوسری جانب بلوچستان میں سرکاری سطح پر بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے سے قحط سالی سے نمٹنے اور زراعت کے شعبے کو ترقی دینے، غذائی خوراک کی قلت جیسے سنگین مسائل اور بلوچستان کے عوام کو پانی کی فراہمی کا دیرینہ مسئلہ حل کرنے کیلئے 100 ڈیموں کی تعمیرکا وعدہ کیا گیا تھا جو کئی برسوں سے مکمل نہیں ہوسکے ہیں۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران بلوچستان میں بہت زیادہ بارشیں ہوئیں مگر یہ بارشیں رحمت کی بجائے قہر بن کر ٹوٹ پڑیں، زمینداروں کی فصلیں تباہ ہوگئیں، شاہراہیں، پل بری طرح متاثر ہوئے۔ گوکہ یہ قدرتی آفت ہے مگر اس سے نمٹنے کیلئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے ،اتنی بارشوں کے بعد بلوچستان میں اگر ڈیم بنے ہوتے تو بلوچستان کو قحط سالی سمیت دیگر سنگین نوعیت کے مسائل سے نہیں گزرنا پڑتامگر اس طرح کے اہم منصوبوں پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اب میڈیا رپورٹس میںبلوچستان میں 100ڈیموں کی تعمیر کے منصوبے میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

ڈیموں کی تعمیر کے منصوبے میں بے قاعدگیوں کا انکشاف ڈیموں سے متعلق خصوصی آڈٹ رپورٹ میں سامنے آیا ہے۔

محکمہ خزانہ بلوچستان کے ذرائع کے مطابق 100 ڈیموں میں سے 26 ڈیموں پر تعمیر کا کام 2018 کے بجائے 2021 میں مکمل ہوا، تاخیر کے باعث لاگت میں 26کروڑ 10لاکھ روپے کا اضافہ ہوا۔ذرائع کے مطابق تاخیر سے پراجیکٹ امپلی مینٹیشن یونٹ اور سپروژن اخراجات میں 13 کروڑ 36 لاکھ روپے کا اضافہ ہوا جبکہ ٹھیکیداروں سے سکیورٹی کی مد میں 12کروڑ روپے کی کٹوتی نہیں کی گئی۔

محکمہ خزانہ کے ذرائع کے مطابق انکم ٹیکس کی مد میں ٹھیکیداروں سے 99 لاکھ روپے کم کاٹے گئے جبکہ نان شیڈولڈ ریٹس کی مد میں11کروڑ 26لاکھ روپے کی اضافی ادائیگیاں کی گئیں۔

مزید برآں آڈٹ رپورٹ میں ذمہ داروں کا تعین کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔

یہ بلوچستان کے اندر بڑا المیہ ہے کہ عوامی مفاد عامہ کے منصوبوں میں تاخیر اور مبینہ کرپشن کی جاتی ہے 100 ڈیموں میں سے صرف 26 ڈیموں کی تعمیر وہ بھی تاخیر سے ہوئی اس میں بھی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

خدارا بلوچستان جو پہلے سے ہی محرومیوں ا ور بدترین پسماندگی کا شکار ہے عوام کے ٹیکسز اور بلوچستان کے مسائل پر ملنے والے فنڈز کو صحیح استعمال کیا جائے جب تک بلوچستان کے اپنے نمائندگان صوبے کے ساتھ مخلص نہیں ہوں گے اور دیانتداری سے کام نہیں کرینگے تو بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی نہیں آئے گی بلکہ مسائل مزید بڑھیں گے ۔

موجودہ صوبائی حکومت نہ صرف ان بے قاعدگیوں میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے بلکہ مفاد عامہ کے منصوبوں کی بروقت تکمیل کو یقینی بنائے تاکہ بلوچستان سے محرومیوں اور پسماندگی کا خاتمہ ممکن ہو سکے اور خطے کے عوام کی زندگی میں بہتری آسکے جو دہائیوں سے مسائل کا شکار ہیں۔