پاکستان نے آئی ایم ایف کو اخراجات کم کرنے کا پلان پیش کر دیا۔ذرائع کے مطابق وزارت خزانہ کی جانب سے آئی ایم ایف کو پیش کیے گئے پلان میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت ایک سال میں 300 ارب روپے سے زائد کے اخراجات کم کرے گی۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ وفاقی وزارتوں کی طرف سے نئی گاڑیاں خریدنے پر مکمل پابندی رہے گی، ایک سال سے خالی گریڈ 1 سے 16 کی تمام پوسٹوں کو ختم کر دیا جائے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں میں فنڈنگ نہیں کرے گی، وفاقی حکومت صرف اہم اور قومی نوعیت کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے وسائل دے گی، انفرا اسٹرکچر کے منصوبے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت کیے جائیں گے۔
ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق وفاقی حکومت کوئی نئی یونیورسٹی قائم نہیں کرے گی، صوبائی حکومتیں اپنے ماتحت آنے والی جامعات کی خود فنڈنگ کریں گی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال سے دفاع اور پولیس کے علاوہ نئی بھرتیوں کیلئے رضاکارانہ پنشن اسکیم پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو پنشن سسٹم کا جائزہ لینے کی ہدایت کر رکھی ہے۔
ذرائع کا یہ بھی بتانا ہے کہ اخراجات میں کمی کے لیے آئندہ مالی سال سے اراکین اسمبلی کی ترقیاتی اسکیموں پر بھی مکمل پابندی کا امکان ہے۔ بہرحال حکومتی سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات سے صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں پر اثرات پڑینگے خاص کر بلوچستان اور خیبرپختونخواہ جیسے صوبوں کے پاس وسائل اور میگا منصوبے چل رہے ہیں جو منافع بخش ہیں مگر بلوچستان کو آج تک ان میگا منصوبوں سے کوئی خاص مالی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔
بلوچستان میں بیشتر ترقیاتی منصوبوں کیلئے وفاق کی طرف دیکھا جاتا ہے اگر بلوچستان اپنے ترقیاتی منصوبے خود چلاتا تو آج مسائل پیدا نہ ہوتے بلکہ بلوچستان اپنے وسائل سے ان منافع بخش منصوبوں سے مزید ترقیاتی منصوبے چلانے کا اہل ہوتا اور اپنا بجٹ بھی خود تیار کرتا۔ نیز گریڈ 1 سے گریڈ 16 تک کی پوسٹوں کے ختم کرنے سے بھی پڑھے لکھے نوجوان متاثر ہونگے جو بے روزگاری کا شکار ہیں ۔
جامعات میں بھی مالی مسائل بہت زیادہ ہیں جن کو بروقت مالی ادائیگی نہ ہونے پر تعلیمی عمل متاثر ہورہاہے ۔یقینا ان اقدامات کے بعد صوبے متاثر ہونگے اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی حکومت صوبوں کو اپنی نئی پالیسی سے کیسے مطمئن کرے گی اور ان کو درپیش مسائل سے نکالنے کیلئے کیا تجاویز دے گی تاکہ وفاق اور صوبوں کے درمیان خلیج پیدا نہ ہو۔