غزہ میں اسرائیلی جارحیت مسلسل جاری ہے ،انسانی بحران شدت اختیار کرگیا ہے، ہزاروں کی تعداد میں مظلوم فلسطینی شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔ غزہ کو مکمل تباہ کرکے رکھ دیا گیا ہے کوئی بھی ادارہ فعال نہیں،
قیامت برپا ہے خوفناک حملے روزانہ جاری ہیں عالمی عدالت انصاف کی جنگ بندی کے فیصلے اور عالمی برادری کے دباؤ کے باوجود اسرائیل کا وحشیانہ آپریشن جاری ہے۔ اسرائیل اپنی جارحانہ پالیسی سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹ رہا، وہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے خاص کر غزہ پٹی پر قبضہ اور مزید یہودی آباد کاری کرکے اپنی جارحانہ پالیسی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی صدر نے جنگ بندی کا فارمولہ پیش تو کردیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیاکہ اسرائیل میں بعض لوگ جنگ بندی معاہدے پر خوش نہیں ہونگے۔ درحقیقت اسرائیلی پالیسی فلسطینیوں کی نسل کشی اور قبضہ گیریت پر مبنی ہے۔ بہرحال امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ میں مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے انخلا کے لیے نیا جنگ بندی معاہدہ تجویز کردیا ہے۔عرب میڈیا کے مطابق امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ دراصل اسرائیل کی جانب سے پیش کیا گیا ہے اور اسے ثالثوں کے ذریعے حماس تک پہنچا دیا گیا ہے۔امریکی صدر نے کہا کہ مجوزہ جنگ بندی معاہدہ 3 مراحل پر مشتمل ہے۔مجوزہ معاہدے کے تحت جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 6 ہفتے طویل ہوگا جس میں مکمل جنگ بندی ہوگی اور اسرائیل فوج غزہ کے آبادی والے علاقوں میں سے نکل جائے گی۔ اس مرحلے میں غزہ میں موجود خواتین اور بزرگ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا جن کے بدلے میںسینکڑوں فلسطینی قیدی رہا ہوں گے، اسی مرحلے میں غزہ میں موجود امریکی مغوی بھی رہا کیے جائیں گے اور ہلاک مغویوں کی لاشیں بھی ورثا کے حوالے کی جائیں گی اور شمالی غزہ سمیت پورے غزہ میں شہری اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔اس دوران غزہ میں روزانہ 600 امدادی ٹرک داخل ہوں گے اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے ہزاروں خیمے تقسیم کیے جائیں گے۔ دونوں جانب سے جنگ بندی معاہدہ تسلیم کیے جانے کے بعد یہ مرحلہ فوری شروع کیا جاسکے گا۔دوسرے مرحلے میں تمام زندہ مغویوں بشمول مرد فوجیوں کا تبادلہ ہوگا اور اسرائیلی فوج غزہ سے مکمل طور پر انخلا کرے گی۔تیسرے مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے کا آغاز کیا جائے گا۔عرب میڈیا کے مطابق امریکی صدر نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اسرائیل میں کچھ لوگ اس منصوبے سے خوش نہیں ہوں گے لیکن میں اسرائیلی حکومت سے کہتا ہوں کہ ہر طرح کے دباؤ سے قطع نظر اس معاہدے کی حمایت کرے۔ بہرحال امریکہ کی جانب سے یہ ایک بڑی پیشرفت ہے مگر اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی پر پہل ضروری ہے کیونکہ اب تک اسرائیل کسی بھی ایسے فیصلے کو ماننے کو تیار دکھائی نہیں دے رہا اور مسلسل آپریشن جاری رکھا ہواہے جس کے خلاف پوری دنیا میں احتجاجی مظاہرے بھی کئے جارہے ہیں مگر اسرائیل اپنی وحشیانہ پالیسی ترک کرنے کو تیار نہیں۔ اگر یہ جنگ بندی مرحلہ وار احسن طریقے سے بڑھتی ہے جس میں فلسطین کی مکمل رضا مندی شامل ہوگی تو مشرق وسطیٰ سمیت عالمی امن کیلئے یہ بڑا تحفہ ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل اپنی جارحانہ پالیسی کب ترک کرے گا اور فلسطینیوں کے خلاف خونی آپریشن ختم کرکے جنگ بندی پر مکمل راضی ہوگا، یہ کہنا فی الحال قبل ازوقت ہے البتہ فلسطین امن کا خواہاں ہے مگر اسرائیل امن دشمن اور جنگی پالیسی پر گامزن ہے۔