|

وقتِ اشاعت :   June 1 – 2024

کوئٹہ:  اراکین قومی و صوبائی اسمبلی انجینئر میر عثمان بادینی ، میر ذابد علی ریکی اوربی این پی کے سابق رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں روزگارکاکوئی دوسراذریعہ نہیں،

ماشکیل میں رہنے والے اپنی زندگی گزارنے کیلئے ایران کے سرحدپرکاروبارکرتے ہیں، مقامی افرادکوذریعہ معاش کاموقع فراہم کرنے کیلئے مزہ سرکراسنگ پوائنٹ اور ماشکیل زیروپوائنٹ کوکاروبارکیلئے جلدازجلدبحال کیاجائے،جائے،

ماشکیل تاکوئٹہ لانگ مارچ کے شرکاء کے تمام مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہیں اورہرفورم پران کابھرپورساتھ دیں گے۔یہ بات انہوں نے ہفتہ کوجمعیت علماء اسلام کے ایم پی اے روی کمار،ایم پی اے ظفرآغا، ماشکیل لانگ مارچ کے رہنماء میرجیندخان ریکی، میرکبیرریکی ودیگر کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر جمعیت علماء اسلام کے رکن قومی اسمبلی حاجی عثمان بادینی نے کہا کہ ماشکیل سے کوئٹہ تک کاسفر700کلومیٹرطویل ہے، جبکہ نوکنڈی سے ماشکیل تک100کلومیٹرراستہ انتہائی دشوارگزارہے،

بارشوں کے دوران یہاںسے سفرکرناممکن نہیں ، راستے بندہوجانے سے ماشکیل کازمینی رابطہ منقطع ہوجاتا ہے ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے بیشتراضلاع کے لوگوں کاذریعہ معاش افغانستان اورایران کے سرحدوں کے سا تھ منسلک ہے، ماشکیل زیروپوائنٹ کی بندش کے مسئلے میں قومی اسمبلی فلورپرمتعددمرتبہ آوازاٹھائی مگرعملدرآمد نہیں ہوا۔مزہ سرکراسنگ پوائنٹ سے لوگ پیدل جبکہ زیروپوائنٹ سے کاروبارکرتے تھے مگرعرصہ درازسے ان پوائنٹس کو بندکردیاگیا ہے ،

ایران ہماراہمسایہ ملک ہے اورہم کاروبارکرکے دونوں ممالک کیلئے اچھے مواقع فراہم کرسکتے ہیںحکومت بارڈرکی بندش کامسئلہ حل کرے۔اس موقع پررکن صوبائی اسمبلی میرزابدریکی نے کہا کہ برساتی پانی کی آمد کے دوران ماشکیل جزیرہ کی شکل اختیارکرجاتا ہے اورہامون ماشکیل کاراستہ مکمل طورپربلاک ہوجاتا ہے اس ضمن میںاسمبلی فلورپرآوازاٹھائی مگرہماری بات کوئی نہیں سنتا،

ایف بی آروالے اپنی مرضی سے جب جی چاہابارڈرکھول دیتے اورجب جی چاہابندکردیتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ’’کاٹاگری ‘‘پوائنٹس سے روزانہ50کے لگ بھگ ٹرک پاکستان آتے تھے اوراس سے ٹیکس کی مد میں اچھی خاصی رقم ملتی تھی جس سے ملک کوفائدہ ہورہا تھامگرکوگزشتہ 15سالوں سے اس کوبندکردیاگیاہے، تفتان، پنجگور، تربت اورگوادرسے راہداری نظام کے تحت سرحد کے قریبی آبادی کو15دن کیلئے آنے جانے کی اجازت دی جاتی ہے مگرہمارے یہاں اس کو بندکردیاگیا ہے ، جمعہ کوایران میں چھٹی ہوتی ہے ہمارے حکام نے یہاں اتوارکے روزبھی چھٹی کے نام کام بندکردیاہے،

انہوں نے کہا کہ ماشکیل کی ایک لاکھ کے لگ بھگ آبادی کادارومدارمزہ سربارڈرسے منسلک ہے اوروہ یہاں سے اشیاء￿ خوردونوش لاکرگزربسرکرتے تھے مگراب یہ بندکردیاگیاہے،انہوں نے بتایاکہ صوبائی حکومت کابتاناچاہتے ہیں کہ ہم کسی سے بھیک نہیں مانگ رہے بلکہ یہ ہمارآئینی حق ہے، ہمیں اپوزیشن سمجھ کرانتقامی کارروائیاں کررہے ہیں توکسی صورت برداشت نہیں کریںگے، 

انہوں نے کہا کہ ماشکیل کے نوجوانوں نے ایک ماہ تک وہاں احتجاج کیامگرکسی نے ان سے بات تک نہیں کی اوروہ کوئٹہ آگئے، یہاں پریس کلب کے سامنے انہیں24گھنٹے گزرگئے مگراب تک کسی حکومتی نمائندہ یاوزیران سے بات کرناتک گوارہ نہیں کیا، ڈپٹی کمشنررات ایک بجے آئے اوراپنی باتیں کرکے چلے گئے ، انہوں نے کہا کہ کسٹم کلکٹرکوپتہ نہیں ماشکیل کابارڈرکیوں بندہے ہمیں بندش کی وجہ بھی نہیں بتارہے ہیں۔سابق رکن صوبائی اسمبلی ثناء￿ بلوچ نے کہا کہ گزشتہ سترسالوں سے حکومت کے پالیسیوں سے سرحدکے قریبی آبادی سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے، بلوچستان میں پی ایس ڈی ہی کانظام دقیانوسی اورکرپٹ ہے جس کی وجہ سے یہاں ترقی کاعمل سست روی کاشکارہے،

انہوں نے کہا کہ ایران میں سرحدی آبادی کو گیس، بجلی اورتمام بنیادی سہولیات زندگی میسرہیں مگرہمارے یہاں ترقیاتی خسارہ دنیامیں سب سے زیادہ ہے ، بلوچستان میں بجلی، پانی، گیس، زراعت اورکوئی انڈسٹریزنہیں ہیں لوگوں اپنی مددآپ کے تحت چھوٹاکاروبارکرنے کیلئے بھی نہیں چھوڑتے، کرتارپوربارڈرکوکھولاگیا اس طرح بلوچستان کے عوام کو بھی روزگارکاحق دیاجائے، انہوں نے کہا کہ ماشکیل، چمن اورپسنی بلوچستان کے تمام سرحد کے قریب آبادعوام کواپنے حق کیلئے ایک ہوناپڑے گا، حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں سرحدی علاقوں کے عوام کیلئے یکساں پالیسی بناکرتمام مسائل حل کئے جائیںاوربارڈرکوریڈوربناکروہاں سے کاروبارکرنے کیلئے منظم لائحہ عمل طے کیاجائے۔

اس موقع پر مزہ سرکراسنگ پوائنٹ کی بندش کیخلاف ماشکیل سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کرنے والے نوجوان جیندخان ریکی نے کہا کہ طوفانی بارشوںسیلابی ریلوں کی آمد اورماشکیل کارابطہ منقطع ہونے کی وجہ سے درپیش مسائل اورمشکلات سے تنگ آکروہ اپنی فریادپہنچانے کیلئے 700کلومیٹرطویل لانگ مارچ کرکے کوئٹہ آئے ہیں، مزہ سرکراسنگ پوائنٹ کی بندش کیخلاف24اپریل2024کواحتجاج کاسلسلہ شروع کرکے ماشکیل میںشٹرڈا?ن وپہیہ جام ہڑتال کیامگرکسی نے ہماری آوازنہیں سنی، صوبائی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ عوام کودرپیش مشکلات ترجیحی بنیادوں پرحل کریںہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تواحتجاج کے دائرہ کارمیں وسعت لاکرریڈزون میں بھوک ہرتالی کیمپ لگائیںگے اورکوئی ناخوشگوارواقعہ پیش آیا تواس کاذمہ دارحکومت ہوگی۔