بلوچستان کے ساحل گوادر میں ٹرالر مافیا نے پسنی چربندن میں ایک بار پھر ڈیرے ڈال دیئے ہیں، سندھ کے گجہ ٹرالرز کی بڑی تعداد ساحل پر غیر قانونی شکار میں مصروف ہے ،مقامی ماہی گیروں کی جانب سے غیر قانونی فشنگ کی ویڈیو بھی وائرل کردی گئی ہے۔
سندھ کے بڑے ٹرالرز کی فشنگ پر مقامی ماہی گیر شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ مقامی ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ محکمہ فشریز اور حکومت بلوچستان کی جانب سے غیر قانونی فشنگ کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ،گجہ ٹرالرز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی، ہمیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ غیر قانونی فشنگ کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے جائینگے مگر اب تک کوئی موثرآپریشن اس مافیا کے خلاف نہیں کیا گیا ہے جبکہ ماہی گیروں کی جانب سے حالیہ عام انتخابات میں گوادر سے کامیاب ہونے والے منتخب نمائندوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیاکہ جب رکن اسمبلی نہیں تھے تو غیر قانونی فشنگ کے خلاف بھرپور طریقے سے آواز اٹھایاکرتے تھے اور ماہی گیروں کے حقوق کی دفاع کیلئے ساتھ جدو جہد کی اور مستقبل میں فشنگ کو روکنے سمیت ماہی گیروں کے مسائل ہر فورم پر اٹھایا تھا جس کی بنیاد پر گوادر کی اکثریتی ماہی گیروں اور عوام نے مولانا ہدایت الرحمن کو ووٹ دیامگر اب ان کی موجودہ غیر قانونی فشنگ پر خاموشی افسوسناک ہے۔
مولانا ہدایت الرحمان اسمبلی فلور پر اس معاملے کو اٹھائیں اور گوادر میں غیر قانونی فشنگ کی روک تھام کیلئے اپنا عملی کردار ادا کریں ہماری امیدیں اور توقعات اس سے وابستہ ہیں۔ بہرحال ماہی گیروں کا یہ دیرینہ معاشی مسئلہ ہے مافیا غیر قانونی فشنگ سے مقامی ماہی گیروں کے حقوق غصب کرکے انہیں نان شبینہ کا محتاج کررہاہے۔
متعدد بار ماہی گیروں نے اس غیر قانونی عمل کے خلاف احتجاج کیا، طویل دھرنا بھی دیا مگر غیر قانونی فشنگ کا عمل اب تک جاری ہے جو سوالیہ نشان ہے کہ ان مافیاز کو کن کی سرپرستی حاصل ہے جو دیدہ دلیری سے سندھ سے آکر بلوچستان کے ساحل گوادر پسنی پر غیر قانونی فشنگ کرتے ہیں، ان قوتوں کو بے نقاب کرنا بھی حکومت اور محکمہ فشریز کی ذمہ داری ہے اور ماہی گیروں کا جو واحد ذریعہ معاش ہے اس کا تحفظ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے لہذا اس غیر قانونی فشنگ کو فوری روکنے کیلئے گجہ مافیا اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائیتاکہ ماہی گیروں کا روزگار متاثر نہ ہو اور نایاب آبی حیات کی نسل کشی بھی نہ ہو کیونکہ فشنگ ٹرالر مچھلی کا شکار کرنے والے بحری جہاز ہوتے ہیں جن میں جال پھینکنے اور کھینچنے کے لیے مشینری کا استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ ایک مخصوص قسم کا بڑا جال ہوتا ہے اور یہ جہاز طاقتور انجن کی وجہ سے دور تک سفر کر سکتے ہیں۔ان بڑے جہازوں میں مچھلی رکھنے کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے اور اس کو کئی روز کے لیے فریز بھی کیا جاسکتاہے ۔
یہ جہاز سمندر میں 15 سے 20 روز تک رہ سکتے ہیں۔ ٹرالنگ کے آلات سمندر کی تہہ کو تباہ کر دیتے ہیں۔
سروے رپورٹ کے مطابق جب یہ چلتے ہیں تو سمندر میں جھاڑو پھیر دیتے ہیں اور سطح کو ہل کی طرح کھود دیتے ہیں جس سے آبی حیات کو نقصان پہنچتا ہے۔سمندر کی زیر سطح جو کچھ بھی ہوتا ہے اس میں چاہے چھوٹی مچھلیاں ہوں، کیڑے مکوڑے ، آبی پودے اور کورال ہوں سب اس جال میں آ جاتے ہیں۔
ان ٹرالروں میں گجا جال استعمال کیا جاتا ہے جو پونچھ کی طرح ہوتا ہے۔
ٹرالر چلتا رہتا ہے اور عملہ جال پھینکتا اور اس کو کھینچتا رہتا ہے
اس جال کے سوراخ بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور وزن پڑ جانے سے مزید چھوٹے بن جاتے ہیں۔
اس جال میں مچھلی اور جھینگے کے ساتھ چھوٹی مچھلیاں، مچھلیوں کے انڈے اور ان کی آماجگاہوں تک سب کو کھینچ لیتے ہیں جو مچھلیوں کی نسل کشی کا باعث بنتا ہے۔
اس عمل سے بلوچستان کے ساحل کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے ۔
بہرحال امید یہی ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی غیر قانونی فشنگ کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ماہی گیروں کا معاشی تحفظ سمیت نایاب آبی حیات کی نسل کشی کے تدارک کیلئے عملی کردار ادا کرینگے تاکہ مقامی ماہی گیر فاقہ کشی کا شکار نہ ہوں۔