|

وقتِ اشاعت :   June 12 – 2024

حکومت نے آئندہ مالی سال 2024-25 کیلئے 8.5 کھرب خسارے پر مشتمل 18 کھرب 87 ارب سے زائد کا بجٹ پیش قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں اجلاس ہوا۔

وزیرخزانہ کی تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین کا ایوان میں شور شرابہ جاری رہا اورسنی اتحاد کونسل کے ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر احتجاج کیا۔

تاہم وزیر خزانہ محمد اورنگزیب بجٹ پیش کرتے رہے اور کہا کہ گزشتہ حکومت کے اسٹینڈ بائی معاہدہ کرنے پر اس کی تعریف کرنا ہوگی، اسٹیڈ بائی معاہدے سے معاشی استحکام کی راہ ہموار ہوئی، اسٹینڈ بائی معاہدے سے غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا، مہنگائی مئی میں کم ہوکر 12فیصد تک آگئی اور اشیائے خورد و نوش عوام کی پہنچ میں ہیں۔

آنے والے دنوں میں مہنگائی میں مزید کمی کا امکان ہے، ہماری مالیاتی استحکام کی کوششیں ثمر آور ہورہی ہیں، سرمایہ کار متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کررہے ہیں۔

وزیرخزانہ نے بتایاکہ وفاقی حکومت کا ٹیکس ریونیو کا ٹارگٹ 12ہزار 970روپے مقرر ہے، نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 4ہزار 845ارب روپے، براہ راست ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5ہزار512ارب روپے اور انکم ٹیکس کی مد میں 5ہزار 454 ارب 6کروڑ روپے کا ہدف مقرر ہے جبکہ گراس ریونیو کا ہدف 17ہزار 815ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، اس کے علاوہ سکوک بانڈ، پی آئی بی اور ٹی بلز سے 5 ہزار 142 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جاری اخراجات کا ہدف 17ہزار 203ارب روپے، سود کی ادائیگی پر 9 ہزار 775 ارب روپے کے اخراجات ہوں گے۔

اگلے سال بجٹ خسارہ 8ہزار 500 ارب روپے رہنے اور رواں مالی سال بجٹ خسارہ 8ہزار 388ارب روپے کا تخمینہ ہے، مجموعی طور پر بجٹ خسارہ 7ہزار 283ارب روپے رہنے کا تخمینہ ہے۔

حکومت نے بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کردیا۔

وزیر خزانہ کے مطابق گریڈ ایک سے 16 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران کی تنخواہوں میں 22 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں 22 فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے جبکہ کم از کم ماہانہ تنخوا ہ 32 ہزار سے بڑھا کر 36 ہزار کی گئی ہے۔

اگر بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو ماضی اور اب کے بجٹ میں کوئی فرق نہیں جس کی بڑی وجہ قرضوں کا بوجھ ہے ۔

دوسرا بڑا مسئلہ معاشی پالیسیوں کے تسلسل کا نہ ہونا ہے اس لئے بجٹ میں ٹیکسز میں بہت زیادہ اضافہ کیاگیا ہے مہنگائی کی شرح میں کمی کے امکانات کم ہی دکھائی دے رہے ہیں ،عوام پر مزید بوجھ آئے گا۔

جب تک کشکول توڑ کر اپنی معیشت کو بہتر کرنے کیلئے خود انحصاری نہیں اپنائی جائے گی بجٹ میں ریلیف کی جگہ ٹیکسز کی بھر مار ہوگی اور عوام یوں ہی پستے رہیں گے ۔