|

وقتِ اشاعت :   4 days پہلے

کوئٹہ :  پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی سیکریٹریٹ کے جاری کردہ بیان میں وفاقی بجٹ کو ملک کے تباہ حال عوام پر بھاری ٹیکسوں کے نفاذ، بھاری خسارے، سودی قرضوں اور آئی ایم ایف کے استعماری شرائط پر مبنی عوام دشمن بجٹ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ 19 ہزار ارب کے اس بجٹ کا نصف یعنی 9 ہزار سات سو پندرہ ارب قرضوں کی سود کے ادائیگی کیلئے مختص ہے جبکہ دو ہزار ایک سو ارب دفاع اور ایک ہزار چودہ ارب پنشن کیلئے جسکا بڑا حصہ دفاعی قوتوں کا ہے اور ساڑھے آٹھ ہزار ارب کا بجٹ خسارہ ہے جو نئے بیرونی اور مقامی قرضوں سے پورا ہوگا۔

اور یہ کہ آئی ایم ایف نے تین ہزار آٹھ سو ارب کے اضافی ٹیکس مسلط کئے ہیں اور ایف بی آر نے 13 ہزار ارب محصولات کا ہدف مقرر کیا ہے حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارے محصولات 8 ہزار ارب روپے سے بھی کم ہیں۔

سول انتظامیہ کیلئے 839 ارب اور ہنگامی صورتحال کیلئے 313 ارب مختص ہے اور صوبوں کا حصہ 7438 ارب ہے جس میں پنجاب کا حصہ نصف سے زائد ہے۔ ترقیاتی پروگرام کیلئے 1500 ارب مختص ہیں جس میں توانائی کیلئے ترقیاتی بجٹ 253 ارب ہے جس میں جنوبی پشتونخوا اور وسطی پشتونخوا کیلئے بجلی کا کوئی منصوبہ شامل نہیں۔

آبی وسائل کیلئے 206 ارب مختص ہے جس میں جنوبی پشتونخوا میں ڈیموں کا ایک منصوبہ بھی نہیں ہے۔

خیبر پشتونخوا کے چشمہ رائٹ بینک لفٹ کنال کیلئے صرف 18 ارب رکھے گئے حالانکہ یہ 1991 کے انڈس واٹر ریکارڈ کا منصوبہ ہے وفاق نے تین صوبوں کے کنالوں کو بروقت تعمیر کیئے لیکن خیبر پشتونخوا کے کنال پر کام شروع بھی نہیں ہو اہے،

چشمہ کنال سے لکی مروت کا تین لاکھ ایکڑ علاقہ سیراب ہوگا۔ حالانکہ واٹر ریکارڈ کے 117 ملین ایکڑ فٹ پانی میں سے 93 ملین ایکڑ فٹ پانی کا سرچشمہ سرزمین پشتونخوا ہے۔ آئی ٹی کیلئے مختص 79 ارب میں پشتونخوا اور بلوچستان کا کوئی منصوبہ نہیں۔

فاٹا کے اضلاع کیلئے 64 ارب کی قلیل رقم رکھی گئی ہے حالانکہ سرتاج عزیز کی پارلیمانی کمیٹی کے فیصلوں کے تحت این ایف سی ایوارڈ سے فاٹا یعنی وسطی پشتونخوا کے ان پسماندہ علاقوں کی ترقی کیلئے دس سال تک سالانہ 120 ارب روپے کی فراہمی لازمی ہے

اور ان دس سالوں میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں فاٹا اور صوبوں کے زیر انتظام قبائلی علاقوں پاٹا کو تمام ٹیکسوں سے چھوٹ حاصل ہوگی۔

زراعت کیلئے مختص 50 ارب میں پشتونخوا وطن کا کوئی منصوبہ نہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اقتصادی سروے میں پاکستانی معیشت کی تصویر افسوسناک اور تشویشناک ہے ہمارے ملک کا حقیقی واجب الادا قرضہ 87 ہزار ارب سے زائد ہے لیکن اس کو 67 ہزار ارب ظاہر کیا گیا ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر صرف 9 ارب ڈالر ہے اور تجارتی خسارہ 17 ارب ڈالر ہے اور شرح خواندگی 62 فیصد ہے،

تعلیم اور صحت پر جی ڈی پی کا ایک ایک فیصد خرچ ہوگا، بجلی اور گیس کی سہولت سے آبادی کی غالب اکثریت محروم ہے۔

اقتصادی شرح نمو 3.6 فیصد اور مہنگائی کی شرح 12 فیصد ہونے کیدعوے سراسر بے بنیاد ہیں۔ تنخوا داروں اور غیر تنخواداروں پر 5 مختلف ٹیکس سلیبز متعارف کرکے ان پر 5 فیصد سے 45 فیصد تک ٹیکسوں کا نفاذ جابرانہ اقدام ہے۔

پیٹرول میں فی لیٹر 20 روپے کے اضافے سے فی لیٹر 80 روپے لیوی عائد کرنے سے ملک کے غریب عوام پر کمرتوڑ مہنگائی کی ناقابل برداشت صورتحال مسلط ہوگی۔ تنخواداروں پر 75 ارب کا ٹیکس لگایا گیا جبکہ جاگیرداروں اور بڑے بڑے پراپرٹی مالکان اور مقتدر طبقات پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ وفاق میں 70 ہزار سے زائد خالی آسامیوں کا خاتمہ عوام دشمن اقدام ہے۔ نئے پلاٹوں رہائشی اور کمرشل جائیداد کی فروخت پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نامناسب ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *