کوئٹہ: خضدار میں سی ٹی ڈی نے کارروائی کر تے ہوئے دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث مبینہ دہشت گرد کوگرفتارکر لیا، مبینہ دہشت سیکورٹی فورسز قبائلی رہنماو ں،
صدر پریس کلب صدیق مینگل پر حملوں میں ملوث تھا،دہشت گرد کا تعلق کالعدم تنظیم سے ہے۔
ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق پچھلے کچھ عرصے سے خضدار شہر میں دہشت گرد تنظیم بی ایل اے پے در پے دہشت گردانہ حملے کر رہی تھی جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں ، معصوم لوگوں اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا جن میں قبائلی شخصیات نائب عبد الغنی زہری ،
حاجی امان اللہ زہری ، میں نوید شاہوانی اور ان کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں آئی پی /ایس ایچ او سی ٹی ڈی شربت خان ،
سی آئی اے پو لیس ،ڈی پی او خضدار کے اسکوارڈ ، آئی پی / ایس ایچ او سی ٹی ڈی مراد جاموٹ، سردار ثناء اللہ زہری کی رہائش گاہ کے قریب پولیس موبائل پر آئی ای ڈی حملے کئے گئے سی ٹی ڈی اہلکار محمد ابراہیم کی ذاتی گاڑی پر بھی میگنٹ آئی ای ڈی نصب کی گئی
جو کے نظر آنے پر بذریعہ بی ڈی ٹیم ناکارہ بنائی گئی۔
ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق 3مئی 2024کو چروک چوک خضدار میں نامعلوم الاسم موٹر سائیکل سوار دہشتگرد نے جمعیت علماء اسلام کے عہدے دار صحافی محمد صدیق مینگل کی گاڑی کو اس وقت میگنٹ آئی ای ڈی چپکا کر بذریعہ ریموٹ کنٹرول دھما کہ کیا جب وہ چروک چوک سے گزر رہے تھے دھماکے کی زد میں آکر صحافی محمد صدیق مینگل سمیت تین افراد محمد وارث اور محمد کریم شہید ہوئے اور چھ افراد شدید زخمی ہوئے جبکہ موٹر سائیکلوں اور رکشوں کو بھی نقصان پہنچا اور عوام الناس میں شدید خوف حراس پھیل گیا جس پر تھانہ سی ٹی ڈی خضدار میں مقدمہ فر د نمبر 60/2024زیر دفعہ 07/ATA، 427-34 PPC، 302-324QD: 3-4Exp درج رجسٹرڈہوا۔
مقدمہ ہذا کی جدید طریقہ تفتیش کے ذریعے کارروائی عمل میں لاتے ہوئے عین وقوعہ سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی گئیں جس میں ایک نا معلوم دہشت گرد جس نے برنگ سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے اور سر پر سرخ رنگ کی ٹوپی (پی کیپ رکھی ہوئی تھی اور عینک پہنے ہوئے تھا چہرے پر سفید رنگ کا سرجیکل ماسک لگایا ہوا تھا کی نشاندہی ہوئی مزید مختلف قبائلی معتبرین کے گھروں پر لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کی مدد سے ایک جگہ کی نشاندہی ہوئی جہاں پر ملزم نے فرار ہوتے وقت اپنی ٹوپی ،
عینک اور ماسک پھینکے تھے ملزم کے سامان کو قبضہ میں لیا گیا اور کرائم سین یونٹ کی فنگر پرنٹ ٹیم کے ذریعے عینک سے فنگر پرنٹ حاصل کئے گئے ، وقوعہ کی جیوفینسنگ کرائی گئی جن کی مدرسے حاصل کردہ معلومات کی بناء پر مورخہ 13.06.2024 کو ایک مشتبہ شخص انیس الرحمن ولد عبد الرحمن قوم ساسولی سکنہ نال ہزار گنجی ، حال ڈاکٹر کالونی نزد محلہ شوکڑو خضدار شامل تفتیش کی گئی۔
ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق بدوران تفتیش مشتبہ نے انکشاف کیا کہ ا ن کا تعلق کالعدم دہشتگرد تنظیم بی ایل اے سے ہے اور ملزم انیس الرحمن بہا الدین زکریا یو نیورسٹی کا طالب علم تھا اور وہاں پر بی ایس او آزاد کا زونل صدر اور بلوچ اسٹوڈنٹ کونسل کا چیئرمین تھا ملزم جو کے باہوٹ کے نام سے ٹویٹر اکاونٹ کا follower ہے جس میں ہمیشہ بی ایل اے کی طرف سے مختلف مواد شائع ہوتے ہیں
جن سے متاثر ہو کر ملزم نے ٹویٹر اوکانٹ (@bahot_bluch) چلانے والے شخص سے رابطہ کیا اور حال احوال کے بعد کہا کہ بی ایل اے کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں جس کا ا س نے ملزم کو کوئی جواب نہیں دیا دبارہ رابطہ کرنے پر ملزم نے ا س کو اپنے فیملی ممبران کا حوالہ دیا جس پر باہوٹ نے ملزم سے رابطہ کیا اور کہا کہ اپنا Wire (chatting software) پر اکاونٹ بنائے آئی ڈی ا سے بھیجے جس کے ذریعے ا ن کا آپس میں رابطہ رہے گا۔
ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق ایک سال سے ملزم اس تنظیم کے لئے کام کر رہا ہے اس وقت تک ملزم نے صحافی مولانا محمد صدیق مینگل پر کی جانے والی واردات اور مورخہ 25.08.2023 کو نواب ثناء اللہ خان زہری کی رہائش گاہ کے قریب پولیس موبائل پر ہونے والے آئی ای ڈی بلاسٹ کی وارداتوں میں ملوث ہونا بتلایا ہے اس کے علاوہ ملزم مختلف طریقوں تنظیم کی معاونت کرتا رہا ہے
جس میں ملزم مختلف مقامات و اشخاص جن میں میرا اکبر سمالانی فدا ساسولی، پولیس آفیسر غوث بخش کی ریکی کرتا رہا ہے اس کے علاوہ مختلف مقامات سے بارود ، آئی ای ڈیز کی رسد بھی فراہم کرتا رہا ہے ملزم سی ٹی ڈی کے حراست میں ہے اور ملزم سے مزید تفتیش جاری ہے۔
تر جمان سی ٹی ڈی کے مطابق سی ٹی ڈی بلوچستان نے اس کیس کو ایک ٹیسٹ لیس کے طور پر لیا جس میں انہیں کامیابی ہوئی دہشت گردوں کی کارروائیوں سے امن کے قیام کے ہمارے عزم کو کمزور نہیں کیا جاسکتا۔
عوام کی جان و مال کا تحفظ ہمارا کام ہے۔سی ٹی ڈی بلوچستان صوبے میں امن وامان کی بحالی اور عوام کی جان ومال کی تحفظ کے لئے ہمیشہ کوشاں رہی ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی قربانی سے سی ٹی ڈی نے کبھی بھی دریغ نہیں کیا ہے اور ناہی کرے گی۔
Leave a Reply