|

وقتِ اشاعت :   3 days پہلے

کوئٹہ: بلوچستان پیس فورم کے سربراہ سینئر سیاست دان وسابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ شہید نواب غوث بخش رئیسانی عملی زندگی پر یقین رکھتے تھے

انہوں نے روایتی زراعت کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا،بلوچستان سمیت پوری ایک بہت بڑے موسمیاتی بحران کی طرف جارہا ہے ،آئندہ نسلوں کو اس بڑے بحران ، بھوک وافلاس کے بحران سے بچانے کیلئے پانی کے بحران پر قابو پانے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے،یہ بات انہوں نے بدھ کے روز بلوچستان میں پستہ کی کاشت کے حوالے سے پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل اور بلوچستان زرعی تحقیقاتی ادارہ Bardcکے زیر اہتمام ایک روزہ آگاہی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

ورکشاپ میں زرعی ماہرین سمیت صوبے کے مختلف اضلاع سے آنے والے زمیندار ،جامعات کے طلباء وطالبات کثیر تعداد میں شریک تھے،

ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے مزید کہاکہ شہید نواب غوث بخش رئیسانی نے بطور وفاقی وزیر زراعت کوئٹہ میں بلوچستان زرعی تحقیقاتی ادارہ (Bardc) کی بنیاد رکھ کر اس کیلئے 73 ایکڑ زمین الاٹ کرائی تاکہ بلوچستان اور اس سرزمین کو زرعی حوالے سے آباد کیا جاسکے،

انہوںنے کہاکہ شہید نواب غوث بخش رئیسانی عملی زندگی پر یقین رکھتے تھے اور انہوں نے روایتی زراعت کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا، انہوں نے کہاکہ شہید نواب غوث بخش رئیسانی نے51 سال پہلے پانی کے ضائع کو روکنے کیلئے کم پانی والا فصلیں کاشت کرنے کیلئے معاشرہ میں آگاہی پھیلائی،انہوں نے کہاکہ پانی کی کمی ہمارے آئندہ نسلوں کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے

کمیونٹی کو اعتماد میں لیکر پانی کو بچانے کیلئے آگاہی مہم چلائی جائے، پانی کا تحفظ نہ کیا گیا تو ہماری آئندہ نسلیں ایک بنجر سرزمین پر زندگیاں گزارنے پر مجبور ہوںگی، انہوں نے کہاکہ صوبے کی زراعت کو ڈرپ ایری گیشن کی طرف منتقل کیا جائے،انہوں نے کہا کہ زمیندار اپنے اپنے علاقوں میں پانی کی سطح کے حوالے سے رپورٹ مرتب کرکے متعلقہ محکمہ اور ذمہ داروں کو آگاہ کریں

تاکہ وہاں مزید ٹیوب ویلوں کی تنصیب پر پابندی عائد ہوسکے، انہوں نے کہاکہ 2022ء میں آنے والے سیلاب نے زمینداری، شہروں اور آبادی کو ویران کیااور رواں سال 14 سو گرمی کے ریکارڈ ٹوٹے ہیں اس کا مطلب ہم ایک بہت بڑے موسمیاتی بحران کی طرف جارہے ہیں،آئندہ نسلوں کو ایک بہت بڑے بحران ، بھوک افلاس کے بحران سے بچانے کیلئے پانی کے بحران پر قابو پایا جائے،

انہوںنے کہاکہ زراعت کو تبدیلی کی طرف لے جاتے ہوئے کم پانی سے کاشت ہونے والی فیصلوں سے متعلق پالیسی بنائی جائے، انہوں نے کہاکہ پستہ کی کاشت کے حوالے سے زمینداروں کو تکنیکی معاملات سے متعلق تربیت فراہم کی جائے اور اس کی کاشت کو ایک صنعت کا درجہ دیاجائے، انہوں نے کہا کہ پاکستان خوردنی تیل کو امپورٹ کررہا ہے اور کئی بلین روپے اور ڈالر اس پر خرچ ہورہے ہیں

شیرانی اور ژوب جنگلی زیتون بہت زیادہ ہیں اس پر توجہ دے کر ان جنگلات کو باقاعدہ زیتون کے جنلات میں منتقل کرکے بڑے پیمانے پر زر مبادلہ کمانے کیساتھ مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے، انہوںنے کہاکہ ہم روزانہ نئے زوال اور بحرانوں کی طرف جارہے ہیں مسائل میں کمی کی بجائے اس میں اضافہ ہورہاہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *