امریکی ایوان نمائندگان نے پاکستان کے عام انتخابات کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔
امریکی ایوان نمائندگان سے 7 کے مقابلے میں 368 ووٹوں سے منظور نان بائنڈنگ قراراداد میں کہا گیا ہے کہ 8 فروری کے الیکشن میں مداخلت اور بے ضابطگیوں کے دعوؤں کی آزادانہ اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کی جائیں۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں عوام کو جمہوری عمل میں شرکت سے روکنے کے لیے عوام کو دبانے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہیں۔ قرارداد میں عوام کو جمہوری عمل میں حصہ لینے سے باز رکھنے کے لیے دھمکانے، ہراساں کرنے اور قید میں رکھنے کی بھی مذمت کی گئی ہے جب کہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ انٹرنیٹ و ٹیلی کمیونیکیشن سہولیات کی فراہمی میں تعطل اور انسانی، سول اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزی قابل مذمت ہے۔
امریکی حکومت اس نان بائنڈنگ قرارداد پر عمل کرنے کی پابند نہیں ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے عام انتخابات سے متعلق امریکی قرارداد کے جواب میں قرارداد لانے کا اعلان کردیا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ امریکی قرارداد کے مقابلے میں قرارداد ضرور لائیں گے، ہم نے نوٹس لیا ہے اور قرارداد کا مسودہ تیار ہے جو سب سے شیئر کرینگے۔انہوں نے کہا کہ امریکی قرارداد کو پاکستان نے مسترد کردیا ہے اور دفتر خارجہ نے قرارداد پر فوری ردعمل دیا ہے، امریکی کانگریس کی یہ قرارداد بلا جواز ہے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ہم نے غزہ پر اپنی واضح پوزیشن دی اور اسرائیل کا نام لے کر مذمت کی ہے، کسی دوسرے ملک نے اسرائیل کا نام لے کر اس جرات سے مذمت نہیں کی ہوگی، ہم کشمیر، غزہ اور دیگر ایشوز پر عالمی فورمز پر بھرپور نمائندگی کریں گے، سلامتی کونسل میں بھی کشمیر اور غزہ پر بھرپور آواز اٹھائیں گے۔انہوںنے کہا کہ پاکستان عالمی سطح پر تنہائی کا شکار نہیں، پاکستان 182 ووٹ حاصل کرکے سلامتی کونسل کاغیرمستقل رکن منتخب ہوا، ہم نے ماضی میں اپنے تعلقات دوسرے ملکوں سے خود خراب کیے، خارجہ پالیسی پر ایوان کا خصوصی اجلاس بلانے کی تجویز مناسب ہے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ماضی کی حکومت میں سی پیک پر کام کو روک دیا گیا تھا لیکن وزیراعظم شہباز شریف نے سی پیک پرکام کو دوبارہ شروع کرایا جب کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر کئی بار کام کرنے کی کوشش کی، اس منصوبے پر امریکی پابندیاں بڑامسئلہ ہے۔
بہرحال امریکہ کی قرارداد انٹرنیشنل اور ریجن کی بنیاد پر لایا گیا ہے چونکہ سی پیک کا دوسرا مرحلہ پاکستان میں شروع ہونے جارہا ہے اور امریکہ عالمی سطح پر چین کا بہت بڑا حریف ہے وہ چینی سرمایہ کاری کو عالمی سطح پر روکنے کیلئے تمام تر کوششیں کرتا آیا ہے جس کا بنیادی مقصد امریکہ کی طاقت اور گرفت کو برقرار رکھناہے ۔اس قرارداد کامقصد بھی سی پیک کے ذریعے پاک چین دوستی میں رخنہ ڈالنا ہے جبکہ خطے میں امریکہ کا سب سے پسندیدہ اور قریب ترین ملک بھارت ہے ،اسے ریجن میں وہ مضبوط طور پر دیکھنا چاہتا ہے، نائن الیون کے بعد بھارت کو افغانستان میں بہت زیادہ اسپیس دی گئی تاکہ وہ امریکی مفادات کے ساتھ اپنے مقاصد بھی حاصل کرسکے۔
بہرحال اس قرارداد میں پاکستان میں پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد اور ڈونلڈ لو کا تذکرہ کسی جگہ بھی موجود نہیں جن پر براہ راست بانی پی ٹی آئی نے سائبر کے ذریعے امریکی مداخلت کا ذکر کیا تھا اور اب بھی کیا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے میں امریکہ ملوث رہا ہے اس کا ذکر تک موجود نہیں۔
درحقیقت اس خطے میں امریکہ اپنے پنجے گاڑھنا چاہتا ہے اور سی پیک منصوبہ سمیت ایران کے ساتھ پاکستان کے تجارتی، سفارتی سمیت دیگر تعلقات کا بدترین مخالف ہے۔
قرارداد کا مقصد پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانا ہے مگر اس کا اثر کچھ نہیں ہوگا مگر یہ تشویش کی بات ضرور ہے کیونکہ پاک امریکہ تعلقات میں تنائو بھی نقصاندہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل قریب میں امریکہ خطے میں کونسی پالیسی اپنائے گا مگر کشیدگی خود امریکہ کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔