کراچی: لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی صاحبزادی سمی دین بلوچ نے والد کی جبری گمشدگی کو 15 سال مکمل ہونے پرپریس کافنرنس کی اور اورکہاکہ،
ریاست پاکستان ہمیں باور کرا ئے کہ ہم خود کو یتیم تصور کریں یا زندہ باپ کے اولاد ہیں۔
سمی دین محمدبلوچ نے کہاکہ، جبری گمشدگیوں کا مسئلہ انسانی حقوق کے حوالے سے ایک سنگین مسئلہ ہے،
یہ بلوچستان اور پاکستان بھر میں انتہائی سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے، لاپتہ افراد کی فہرست میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے
لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ریاست آج تک سنجیدہ نہیں ہے ۔
انہوں نے بتایاکہ، والددین محمدبلوچ بلوچستان کے دورافتادہ اور پسماندہ علاقہ اورناچ خضدار میں سرکاری ڈیوٹی پہ تعینات تھے،
جہاں سےاسے لاپتہ کیاگیا، پندرہ سال گزرنے کے باوجود آج تک ہمیں اسکی کوئی خیر خبر نہیں ملی ہے،انہوں نے کہاکہ، والد کی بازیابی کے سلسلے میں ہم ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک پیش ہوئے ہیں، 2016 میں سپریم کورٹ نے ہمارے والد کی گمشدگی کے کیس کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ وہ بیرون ملک چلے گئے ہیں یا فراری کیمپوں میں ہیں،
لیکن یہ بیان ہمارے لیے قابل قبول نہیں، سپریم کورٹ جیسے بڑے ملکی ادارے کو یہ بات ثابت کرنا چاہیے تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اسکے باوجود بھی ہم ملکی اداروں کا احترام کرتے ہوئے کمیشن کے سامنے بھی پیش ہوتے رہے ہیں، کمیشن میں ہمیشہ الٹے سیدھے سوالات سے ہماری تذلیل کی جاتی رہی ہے اور ہمیں ھراساں کیا گیا،پریس کانفرنس کے موقع پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ ، وہاب بلوچ اور سمی دین کی چھوٹی بہن مہلب بلوچ بھی موجود تھیں۔