کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں تعلیم، صحت ،امن وامان، لوکل گورنمنٹ، ماحولیاتی تبدیلی ، گڈگورننس کے شعبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ،
نوجوانوں سے ملیں گے انہیں گلے لگا کر بات سنیں گے اور مسائل حل کریں گے ،پاکستان کے فریم ورک میں رہتے ہوئے جو بھی بات چیت یا سیاست کرنا چاہے کریں گے مگر اگر کوئی بندوق کی نوک پر نظریہ مسلط کرنے ، سیاحوں، مزدوروں، بلوچوں ، ڈاکٹروں کو قتل کریگا تو اس کی اجازت نہیں دیں گے ،
ریاست اپنی رٹ کو قائم اور عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنائے گی ، یکم جولائی کو پہلا ٹینڈر ہوگا اس کے بعد ہی ہمارا احتساب شروع ہوگا،
تمام وزراء ،سیکرٹریز فیلڈ میں نظر آئیں گے ۔
یہ بات انہوں نے جمعہ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ کی منظور ی کے بعد ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہی ۔وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں گورننس کے نظام کو بہتر کرنے اور غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے ہم کام کریں گے غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنے کا ایک طریقہ نئی بھرتیوں کی شرح میں کمی کرنا ہے ہم نوجوانوں کو ہنر مند بنا کر بااختیار بنائیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ کو بڑھانے کے لئے صوبائی حکومت اپنے ریونیو کو بڑھائے گی 18ویں ترمیم کے بعد اب وفاق بھی صوبے کے لئے ماضی طرح آگے نہیں آتا ۔انہوں نے کہا کہ 220ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ سے 43فیصد پاکستان کو ترقی دینا ممکن نہین ہے ہمیں نئے شہر آباد کرنے کی ضرورت ہے تا کہ آبادی کو بہتر سہولیات مہیا کی جاسکیں ۔انہوں نے کہا کہ صوبے کی استعداد 10کروڑ روپے کی اسکیم کے مکمل اخراجات کرنے کی بھی نہیں ہے
صوبائی حکومت نے بجٹ میں 70فیصد اسکیمات کو منظوری کے بعد شامل کیا ہے جبکہ 30فیصد اسکیمات کی منظوری کے لئے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کو 15جولائی تک کا وقت دیا ہے تاکہ جو وقت اسکیمات کی منظوری میں خرچ ہوتا ہے وہ ان پر کام کرنے میں صرف ہو ۔
انہوں نے کہا کہ یکم جولائی کو صوبے میں پہلا ٹینڈر کریں گے اور اس کے بعد وزراء، سیکرٹریز فیلڈ میں کام کرتے نظر آئیں گے ہم اس بار 220ارب روپے خرچ کر کے عوام کے لئے کام کریں گے تاکہ وہ بھی بہتری محسوس کرسکیں ۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ غیر متوازن ترقی سے بلوچستان بہت پیچھے رہ گیا ہے ہماری گورننس کا ماڈل شورش کے حق میں جاتا ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے کہا کہ این ای سی میں صوبائی سطح کی اسکیمات وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ واپس کروایا ہے صوبائی حکومت نے اس بار 79منصوبے وفاق کو دئیے جن میں سے 2منظور ہوئے ہیں جبکہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں صوبے کے لئے انتہائی کم رقم مختص کی جاتی تھی جس کا بھی صرف 25فیصد ریلیز ہوتا تھا اس بار اپنا کیس وفاق کے سامنے رکھا اور کوئٹہ کچلاک ، کوئٹہ کراچی شاہراہوں ، سائو تھ بلوچستان پیکج سمیت دیگر منصوبوں کے لئے اچھی خاصی رقم مختص کی گئی ہے جس سے آئندہ مالی سال میں میگا اسکیمات مکمل ہونگی ۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو ٹھیک کرنے کے لئے ہمیں سمت کا تعین کرنا ہوگا ہم چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں ہم سراہیں نہ کہ ہمیں برا بھلا کہیں صوبے میں تعلیم، صحت، امن وامان کے شعبے ایسے ہیں کہ جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ان شعبوں کے مسائل کے حل کے لئے اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کریں گے جن میں ارکان مسائل کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا حل بھی تجویز کریں گے ۔
انہوں نے کہا کہ ہم آگے نہیں جارہے بلکہ ہماری ہیومن ڈوپلمنٹ دن بدن کم ہورہی ہے جب تک ہم نالیوں، سڑکوں کی تعمیر سے نکل کر بلدیاتی نظام کومستحکم نہیں کرتے مسائل حل نہیں ہونگے ۔لوگ قسم پرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ہم گورننس کو بہتر بنائیں گے ۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ تعلیم کا بجٹ 300فیصد بڑھایا گیا ہے سکولوں کے لئے 130ارب روپے خرچ کر رہے ہیں یہ سارے اسکول اردو میڈیم اور جدید دور کے تعلیمی تقاضوں سے دور ہیں اتنی خطیر رقم خرچ کر کے بھی ہمیں صفر نتائج مل رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم کی پالیسی اور نظام مسائل ہیں جنہیں دور کرنے کی کوشش کریں گے صوبائی حکومت پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ، نیم سرکاری ماڈل سمیت دیگر چیزوں پر غور کر رہی ہے ہمیں معیار تعلیم کے لئے بہتر پالیسی مرتب کرنی ہوگی ۔
انہوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں صورتحال بہتر نہیں ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ استاتذہ کی تنخواہوں کے پیسے نہ ہوں اور جامعات میں بلڈنگ ، شعبے بنائے جارہے ہوں ہم جامعات کو پیسے دیں گے مگر انکا احتساب بھی کریں گے ایک ایک شعبے میں 600سے 700لوگ ہیں جبکہ وہاں 4سے 5طلباء داخلہ لے رہے ہیں یہ ظلم ہم نے خود اپنے ساتھ کیا ہے اور اسے ٹھیک بھی ہم نے کرنا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں امن و امان کا مسئلہ سنگین ہے کسی بھی تنازعے کو بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جا تا ہے ریاست اور حکومت تمام لوگوں سے بات چیت کے لئے تیار ہے اور ہمارے دروازے ان کے لئے کھلے ہیں پورا پاکستان کہتا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ طاقت سے حل نہیں ہوگا اگر کوئی بات نہیں کرتا تو کیا ہم انہیں ہمارے سیاحوں کو اغواء کرنے ، بلوچوں، فورسز کے اہلکاروں، استاتذہ، مزدوروں ، ڈاکٹروں ،ہجاموں کو شناختی کارڈ دیکھ دیکھ قتل اور مختلف الزامات لگا کر قتل کرنے اور گولیوں سے چھلنی کرنے کی اجازت دے دیں ؟۔انہوں نے کہا کہ حکومت کسی صورت اسکی اجازت نہیں دیگی ریاست کی رٹ کو قائم اور عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے جو ہم کریں گے ۔
انہوں نے کہا کہ مسلح جتھہ بنا کر بندوق کی نوق پر کسی کو اپنا نظریہ مسلط نہیں کرنے دیں گے ہم سی ٹی ڈی ، سیکورٹی فورسزکو مستحکم کریں گے اور سمارٹ کاروائیاں کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ جو آئین پاکستان کے فریم ورک میں رہ کر یہاں سیاست کرنا چاہتا ہے ہم انہیں گلے لگائیں گے ہم نوجوانوں کے پاس جائیں گے ان کی بات سنیں گے گلے سے لگائیں گے لیکن جو قانون ہاتھ میں لے گا اس سے سختی سے نمٹیں گے ۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ صحت کے شعبہ کا بجٹ آئندہ مالی سال میں 126فیصد بڑھا دیا گیا ہے صوبے میں صاحب استاعت طبقہ تو اپنا علاج کہیں سے بھی کرو اسکتا ہے مگر غریب لوگ اپنا علاج نہیں کروا سکتے اگر ہم 120ارب روپے آغا خان ہسپتال کو دیں تو پورے بلوچستان کا علاج ممکن ہے صحت کے شعبے میں اصلاحات لانے کی کوشش کریں تو شور و غوغا ہوتا ہے کوئٹہ کے تین بڑے ہسپتال وں کو نیم سرکاری بنانے جارہے ہیں
جس پر تمام ڈاکٹر، پیرامیڈیکس اور متعلقہ تنظیموں سے بات چیت اور مذاکرات کئے ہیں۔ڈیرہ بگٹی ،گوادر کے ہسپتالوں کو پرائیویٹ کررہے ہیں
جس پر ارکان اسمبلی اور بیوروکریسی کو اعتماد میں لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ بلدیاتی نظام نچلی سطح تک ترقی پہنچانے کا واحد ذریعہ ہے ہمیں بنیادی ترقی کے لئے بلدیاتی نظام کو مستحکم بنانا ہوگا جس کے لئے 100فیصد بجٹ میں اضافہ کیاگیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی میں بلوچستان کا کردار نہیں ہے لیکن اس نے ہمیں سب سے زیادہ متاثر کیا ہے 2022کے سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے 400سے 500ارب روپے چاہیے وفاق نے صوبے کو 400ملین ڈالر کی گرانٹ دی لیکن اس پر کام شروع نہیں ہوا جولائی میں چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کے دورے کے موقع پر سیلاب زدگان کی بحالی کے منصوبے کا افتتاح کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ نصیر آباد، گوادر، چاغی ، سوئی حالیہ بارشوں میں متاثر ہوئے اور ان میں اربن فلڈنگ بھی ہوئی حکومت نے فوری طور پر ان علاقوں میں ریلیف کے اقدامات اٹھائے ہیں ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے محنت کریں گے ۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت نے صوبے کے طلباء و طالبا ت کے لئے اسکالرشپ کا اعلان کیا ہے جس کے تحت تمام اضلاع کے بلوچستان بورڈ کے ٹاپ 10پوزیشن ہولڈرز ، ٹرانس جینڈر، سالانہ 100اقلیتی طلباء و طالبات ، سولین شہداء کے بچوں کو 16ویں جماعت تک مفت تعلیم مہیا کریں گے ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ کوئٹہ ہمارا چہرہ ہے ہم سب یہاں رہتے ہیں میٹروپولیٹن کارپوریشن کوئٹہ کی کچرہ اٹھانے کی استعداد صرف 700ٹن یومیہ ہے اور اس میں بھی ہم نے میر ،معتبر، وڈیرے بھرتی کر دئیے ہیں جس سے کام نہیں ہوتا ۔انہوں نے کہا کہ صفائی مہم کے دور ان کوئٹہ میں 10،10سال سے موجود اڑھائی لاکھ ٹن کچرہ اٹھایا گیا ہے کوئٹہ کی صفائی کے مستقل حل کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت سالڈ ویسٹ مینجمنٹ ہے
جس کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اتھارٹی کو 14اگست تک ٹینڈر کر کے گھروں سے کچرہ اٹھانے کے اقدامات کا آغاز کرنے کی ہدایت کردی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میٹروپولیٹن کاپوریشن کا 50،50کروڑ کا ڈیزل خرچ ہوتا ہے مگر نتیجہ صفر ہے کوئٹہ کو صاف ستھرا شہر بنائیں گے جبکہ ماسٹر پلان کے تحت کوئٹہ میں نیو کوئٹہ کے نام سے شہر بنائیں گے تاکہ شہر کا رش اور بوجھ کم کیا جاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ گرین بس منصوبے میں توسیع کر کے کچلاک تامستونگ اور تربت میں بس سروس شروع کرنے جارہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے نوجوانوں کے لئے کوئی یوتھ پالیسی نہیں تھی ہم نے یوتھ پالیسی منظور کروائی ہے صوبے میں سکل ڈوپلمنٹ پروگرام شروع کر کے نجی شعبے کے اشتراک سے کم ازکم پانچ سال تک نوکریاں فراہمی یقینی بنائیں گے
،اخوت کے ساتھ ملکر نوجوانوں کو کاروبار کے لئے آسان اقساط کر کاروبار کے لئے قرض دیں گے ۔انہوں نے کہاکہ ہمارا احتساب 1جولائی سے شروع ہوگا ہم صوبے کے دور دراز علاقوں میں جائیں گے بجٹ کو صحیح معائنوں میں خرچ کریں گے ۔
انہوں نے کہا کہ کرپشن اہم مسئلہ ہے اس کے خاتمے کے لئے محکمہ اینٹی کرپشن کو مستحکم کر رہے ہیں ، صوبے کے کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، ایکسین کانفرنسز بلائیں گے ہم صیحح کام کے لئے صیحح تعینات کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ میڈیانے مشکل حالات میں کام کیا ہے خضدار پریس کلب کے صدر کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ پیپلز پارٹی کی قیادت، اتحادیوں جماعت کے ارکان ،
اپوزیشن کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ایوان کو صوبے کی روایات کے مطابق چلایا ۔انہوں نے کہا کہ بجٹ کی تشکیل پر صوبائی وزراء منصوبہ بندی و ترقیات،خزانہ ،چیف سیکرٹری ، تمام محکموں ، وزیراعلیٰ اور صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ کے اسٹاف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ پی اینڈ ڈی ،خزانہ، وزیراعلیٰ اور اسمبلی سیکرٹریٹ کے ملازمین کو ایک ،ایک ماہ کی تنخواہ بطور بونس دیں گے جس پر اسپیکر نے کہا کہ روایات کے مطابق تین تین تنخواہیں دی جاتی ہیں جس پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ اس معاملے پر غور کریں گے ۔بعدازاں اسمبلی کا اجلاس آج صبح 11بجے تک ملتوی کردیا گیا ۔