|

وقتِ اشاعت :   2 days پہلے

بلوچستان میں مضبوط اور مستحکم حکومت ہی بہترین گورننس کے ذریعے معاشی و سیاسی تبدیلی لاسکتی ہے۔

بدقسمتی سے بلوچستان میں بیشتر حکومتوں کے وزراء اعلیٰ نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔ حکومتی اور اتحادی جماعتوں نے اپنے ہی وزراء اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے اور حکومت کی چھٹی کردی جس پر یہ جواز پیش کیا جاتا رہا کہ وزیراعلیٰ نے ہمارے حلقوں کو نظر انداز کیا، ہمیں مطلوبہ فنڈز اور ترقیاتی اسکیمات نہیں دی گئیں،مگر پھریہی ارکان دوسری حکومت میں شامل ہو جاتے۔

دوسری جانب وزراء اعلیٰ کے شکوے سامنے آتے کہ بلوچستان میں مخلوط حکومت چلانا بہت مشکل اور کٹھن ہے سب کو خوش کرنا پڑتا ہے بہ امرمجبوری ناجائز مطالبات بھی ماننے پڑتے ہیں اگر ان کی خواہشیں پوری نہ کی جائیں تو دھڑے بننا شروع ہو جاتے ہیں ۔

جبکہ سیاسی انجینئرنگ بھی ایک بڑا مسئلہ بلوچستان کا ہے جس کی وجہ سے ایک مضبوط و مستحکم حکومت نہیں چل پاتی اور نہ ہی اپوزیشن ارکان بہت زیادہ مخلص ہوتے ہیں ،ان کے بھی جائز، ناجائز تجاویزکو مان لیا جاتا ہے، فنڈز سمیت ترقیاتی اسکیمیں بھی دی جاتی ہیں مگر ان کے حلقوں میں جاکر دیکھا جائے تو پسماندگی ہی پسماندگی ہے۔

بہرحال عدم اعتماد کی تحریک جمہوری عمل کا ایک حصہ ضرور ہے مگر حکومت کا پوری مدت چلناپسماندہ خطے کیلئے ضروری ہے اور یہ سب کے علم میں ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی کے زیادہ ذمہ دار خود بلوچستان کے نمائندے بھی ہیں جو عرصہ دراز سے اسمبلی میں موجود ہیں، حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں مگر اس کے باوجود بھی ان کے اپنے حلقے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

اب بلوچستان میں ایک نئی مخلوط حکومت ہے توقع یہی ہے کہ بلوچستان کے نمائندگان مخلصانہ کردار ادا کرکے اپنے صوبے کو مسائل سے نکالیں گے۔

گزارش یہی ہے کہحکومت اور اپوزیشن جماعتیں بلوچستان کی ترقی کیلئے ساتھ چلیں اور وفاق کے سامنے بلوچستان کا مقدمہ بھی ساتھ لڑیں ۔

حکومتوں کے خاتمے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بڑھ جاتے ہیں جس کی مثال بلوچستان کے موجودہحالات ہیں کہ یہ صوبہ ترقی کی دوڑ میں دیگر صوبوں سے بہت پیچھے ہے۔

گزشتہ روز میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ مجھے ایوان کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے ، حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے میں وزیراعلیٰ ہوں ،ایوان کی اکثریت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کو منظور کیا ہے۔

بہرحال بلوچستان میں پہلے کے وزیراعلیٰ بھی یہی کہتے رہے ہیں کہ اکثریت کی حمایت ان کو حاصل ہے مگر دو سال گزرنے کے بعد اختلافات سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں مگر اب یہ سلسلہ رکنا چاہئے اس کیلئے وزیراعلیٰ بلوچستان کو زیادہ ترجیح گورننس پر دینی ہوگی ،تمام اراکین اسمبلی کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا ان کے جائز مطالبات کو ضرور تسلیم کرنا چاہئے ،تجاویز لیکر ترقی کے سفر کو آگے بڑھانا ہوگا مگر ناجائز مطالبات اور گورننس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چائیے، عوام کے پیسے عوام پر خرچ ہونے چاہئیں، سیاسی بھرتیوں، ناجائز ٹرانسفر پوسٹنگ کو روکنا ہوگا، افسر شاہی کا خاتمہ کرنا ہوگا ،میرٹ کو ترجیح دینی ہوگی۔

سب سے زیادہ پسماندہ علاقوں کی ترقی ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے۔

بلوچستان میں شورش سمیت جولاپتہ افراد کا مسئلہ ہے اس کو بھی سیاسی حوالے سے حل کرنے کی طرف جانا ہوگا تاکہ بلوچستان میں معاشی و سیاسی استحکام آسکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *