|

وقتِ اشاعت :   3 days پہلے

کوئٹہ: 2024 کی دوسری سہ ماہی کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے 240 واقعات اور آپریشنز میں اب تک شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 380 افراد ہلاک جب کہ 220 زخمی ہوئے ہیں سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس)کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان صوبے پرتشدد واقعات کے مراکز رہے

جہاں اس عرصے میں تقریبا 92 فی صد اموات اور 87 فی صد دہشت گردانہ کارروائیاں اور آپریشنز ہوئے رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ دوسری سہ ماہی میں ملک بھر میں تشدد اور اموات کی شرح میں کمی آئی اور ملک میں مجموعی طور پر تشدد میں 12 فی صد کمی ہوئی۔

پہلی سہ ماہی میں 432 کے مقابلے دوسری سہ ماہی میں 380 اموات ریکارڈ کی گئیں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں بدستور دہست گرد تنظیمیں موجود ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے سے جاری آپریشنز کو نئے نام دیے جا رہے ہیں لیکن ان مسائل کے مکمل حل کے لیے اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے

دی آر ایس ایس’ کی رپورٹ کے مطابق ملک میں دہشت گردی کے معاملے میں کچھ بہتری بھی آئی ہے اور سب سے زیادہ قابلِ ذکر بہتری بلوچستان میں دیکھی گئی جہاں تشدد میں 46 فی صد کمی آئی پہلی سہ ماہی میں بلوچستان میں 178 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے

جب کہ دوسری سہ ماہی میں یہ تعداد 96 ہو گئی ہیتاہم پچھلی سہ ماہی کے مقابلے میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 13 اور 31 اموات کے اضافے کے ساتھ تشدد میں اضافہ ہوا ہے شہروں میں 24 افراد کو ہدف بنایا گیا جنہیں بلوچستان شناخت کے بعد نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے چار کان کن اور دو پولیو ورکرز بھی تشدد کا شکار ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ تشدد کے نتیجے میں 11 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

پولیس اور فوج کے اہلکار اکثر دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنتے رہے۔ پولیس اہلکاروں میں دو ڈی ایس پی بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی جانیں گنوائیں جب کہ 31 پولیس اہلکار بھی جان کی بازی ہار گئے رپورٹ کے مطابق رواں برس کی دوسری سہ ماہی کے دوران آرمی کیپٹن سمیت 65 کے قریب سپاہی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جب کہ ایک سابق بریگیڈیئر بھی نامعلوم حملہ آوروں کے حملے میں جان کی بازی ہار گئے’نئے آپریشن کے نتائج پر غور نہیں کیا گیایہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے

جب حکومتِ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن عزم استحکام شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے تجزیہ کار اور سی آر ایس ایس کے سربراہ امتیاز گل نے کہا کہ آپریشن کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کے ردِعمل کے بعد حکومت اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئی ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی ایک عرصے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پہلی ذمے داری بن چکی ہے اور اس بارے میں نئے آپریشن کے اعلانات کے ڈھول بجانے کی ضرورت نہیں ہیامتیاز گلنے بتایا کہ پاکستان میں حالیہ دنوں میں آپریشن کے حوالے سے جو فیصلے کیے گئے ان فیصلوں کے ممکنہ اسٹریٹجک نتائج پر غور نہیں کیا گیا بلوچستان کی طرف عزم استحکام آپریشن کے خلاف شدید ردِعمل آیا جس کی وجہ سے حکومت وضاحتیں دینے پر مجبور ہو گئی

انہوں نے مزی کہا کہ ہر آپریشن کے بعد کہا گیا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی اور اس کے بعد دوبارہ آپریشن کرنا پڑے ہیامتیاز گل کا کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں موجود انتہا پسندی کی وجہ سے بھی مشکلات بڑھ رہی ہیں اور ہجوم کی طرف سے تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں امتباز گل کہتے ہیں کہ خطرات کی مکمل نشاندہی تک دہشت گردی کے خلاف کوئی بھی مہم کامیاب نہیں ہو سکتی تجزیہ کار عبداللہ خان کہتے ہیں کہ بلوچستان میں اس وقت بھی تین دہشت گرد گروہ کام کر رہے ہیں جن میں حافظ گل بہادر گروپ، ٹی ٹی پی اور ان کے ساتھ داعش آپریٹ کر رہی ہیگفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں گزشتہ ماہ جون میں کچھ کمی آئی ہے۔ لیکن یہ معلوم نہیں کہ یہ کمی برقرار رہے گی

یا نہیں ڈاکٹر عبداللہ خان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں حکومت کا موقف واضح نہیں ہے۔ صرف طاقت کے استعمال سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان اگر افغان طالبان کی مدد سے ٹی تی پی کے ساتھ مذاکرات کرے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں ڈاکٹر عبداللہ خان نے کہا کہ حالیہ عرصے میں پاکستان کی طرف سے افغان مہاجرین کو وطن واپس بھجوانے اور بارڈر پر سختیوں کے نتائج اچھے برآمد نہیں ہوئے اور اب تک اعدادوشمار کے مطابق ان اقدامات کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے ان کے مطابق حکومت آپریشن کے اعلانات تو کر رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ افغان طالبان کی مدد سے ٹی ٹی پی کے ساتھ اگر مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا جائے تو ہی بہتری آ سکتی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *