|

وقتِ اشاعت :   July 9 – 2024

بلوچستان میں پولیو کیسز کی بڑی وجہ افغانستان ہے جہاں سے وائرس سے متاثرہ افراد آتے ہیں ۔

افغانستان میں بڑے پیمانے پر پولیو وائرس کے کیسز پائے جاتے ہیں جو ریکارڈ پر نہیں آتے اور بہت کم رپورٹ ہوتے ہیں۔

بلوچستان سے منسلک افغان سرحد سے روزانہ لوگوں کی بڑی تعداد کی آمد و رفت ہوتی ہے، بدقسمتی سے پولیووائرس کی تشخیص کیلئے ٹیسٹ اور دیگر انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے وائرس سے متاثرہ افراد بلوچستان کے طول و عرض میں آتے ہیں جس کی وجہ سے پولیو وائرس پر قابو پانا مشکل ہوگیا ہے جبکہ ایک اور بڑا مسئلہ والدین کا اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلانے کابھی ہے بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں والدین بچوں کو پولیو پلانے سے انکار کرتے ہیں اور منفی پروپیگنڈہ کا شکار ہوکر بچوں کو عمر بھر کی معذوری کا شکار بناتے ہیں جو کہ اپنے ہی بچوں کے ساتھ ظلم ہے۔

بلوچستان میں حالیہ سات روزہ پولیو بچاؤ مہم اختتام پذیر ہوئی ، 16اضلاع میں انسدادپولیو مہم کا 98 فیصد ہدف حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔مہم میں 9 لاکھ51 ہزار سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین پلانے کاہدف مقرر تھا۔

حکام نے انکشاف کیا ہے کہ صوبے میں اب تک پولیوکے قطرے پلانے سے انکاری تقریباً 3000 والدین رپورٹ ہوئے ہیں۔

یہ ایک تشویشناک بات ہے کیونکہ اس طرح وائرس مزید تیزی کے ساتھ پھیلے گا اور دیگر بچوں کو بھی متاثر کرے گا۔

والدین کے لیے پولیو کے قطرے پلانے کے متعلق آگاہی مہم چلائی جاتی ہے جس میں علمائے کرام، سیاسی، مذہبی جماعتوں سمیت دیگر مکتبہ فکر کے لوگ بھی حصہ ڈالتے ہیں مگر اس کے باوجود والدین پولیو ویکسین کے متعلق منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے اپنے بچوں کو قطرے نہیں پلاتے۔

بہرحال محکمہ صحت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ جن علاقوں سے پولیو وائرس کے نمونے سامنے آرہے ہیں اور جہاں والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکاری ہیں وہاں ہنگامی بنیادوں پر مہم کے حوالے سے سخت اقدامات اٹھائے جائیں اور سیکیورٹی کے بھی انتظامات سخت کیے جائیں تاکہ پولیو وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے اور مستقبل کے معمار معصوم بچوں کوعمر بھر کی معذوری سے بچایا جاسکے۔