بلوچستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاسی مسائل ڈیڈلاک کا شکار ہیں۔
مختلف حکومتوں کی جانب سے بلوچوں کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی گئی مگر اس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی جس کی ایک بڑی وجہ واضح روڈ میپ اور میکنزم کانہ ہونا ہے۔
بلوچ قوم پرست جماعتیں خاص کر بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی جو بلوچستان کی دو بڑی قوم پرست جماعتوں میں شمار ہوتی ہیں اور دونوں جماعتیں وفاق میں حکومت کا حصہ رہ چکی ہیں ،اب یہ جماعتیں ملکی آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنی سیاست کررہی ہیںجو بلوچستان کے ساحل اور وسائل پر خود مختاری کی بات کرتے ہیں مگر ان جماعتوں کا حکومت میں رہنے کے باوجود بھی مرکز سے شکوہ ہے کہ بلوچستان کے حقوق آئین کے تحت نہیں دیئے جاتے ، بلوچستان کے وسائل پر دسترس کے حوالے سے بھی صوبہ کو مکمل نظر انداز کیا گیا ہے ۔
یہ باتیں صوبائی اور قومی اسمبلی سمیت سینیٹ میں بھی کی جاچکی ہیں جبکہ بی این پی نے پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم دور حکومت میں اتحادی کی حیثیت سے نکات کی شکل میں بھی وفاقی حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھے ۔
اب اس میں پیش رفت کیوں نہیں ہوسکی یہ بی این پی کی قیادت اور مرکز ہی بہتر جانتی ہے۔
جبکہ بی این پی آخر تک ان دو حکومتوں کے ساتھ اقتدار میں تھی جبکہ نیشنل پارٹی 2013 میں ن لیگ کی اتحادی جماعت تھی صوبہ میں ڈھائی سالہ وزارت اعلیٰ کا منصب بھی نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبد المالک بلوچ کے پاس تھا اور مرکز میں بھی وزارتیں ان کے حصہ میں آئیں مگر بلوچستان کا سیاسی مسئلہ حل نہیں ہوا اور اس پر دونوں جماعتیں بھی ناراضگی کا اظہار کرتی رہتی ہیں مگر بنیادی وجوہات کھل کر سامنے نہیں لاتیں کہ کیونکر مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھا اور بلوچستان کے وسائل پر اختیارکیونکر نہیں ملا۔
دوسری جانب بلوچستان میں ایک دوسری قوت موجودہے جو پارلیمانی سیاست نہیں کرتی،وہ پہاڑوں پر ہے اور طاقت کی زور پر بلوچستان کے حقوق حاصل کرنے کی بات کرتی ہے جنہیں خود حکومتوں نے ناراض بلوچ قرار دیا ہے ،ان کی قیادت کے ساتھ بات چیت پر زیادہ فوقیت دی جاتی ہے مگر مسئلہ یہی ہے کہ راستہ کس طرح نکالا جائے کہ مذاکرات کا عمل کم از کم شروع کیا جاسکے۔
اب ایک بار پھر وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے ناراض بلوچوں کو مل بیٹھ کر گلے شکوے دور کرنے کی دعوت دی ہے۔
گزشتہ روز کوئٹہ میں بلوچستان کابینہ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جو بلوچستان اور پاکستان کی خیرخواہی چاہتا ہے اسے گلے لگائیں گے، خارجی طاقتوں کو ہم سب جانتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہم نے عام آدمی کو ریلیف دینا ہے، وفاق بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے آپ کے ساتھ ہے، اگر بلوچستان اور کے پی میں سرمایہ کاری لانی ہے تو سکیورٹی ہماری سب سے پہلی ضرورت ہے، ہم دہشت گردی کے ناسور کو مل کر ختم کریں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ گوادر کے حوالے سے میں شکایت نہیں کر رہا،گوادر میں سیف سٹی بند کر دیا گیا، گوادر انشاء اللہ ریکوڈک کی کانوں سے زیادہ فائدہ مند ہوگا، ہم گوادر کو شاندار پورٹ بنانے کے لیے تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا بلوچستان ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہے جس کی کئی وجوہات ہیں، اگر 500 ارب سبسڈی کا پیسا بلوچستان کی ترقی اورخوشحالی پر لگا ہوتا تو یہاں ترقی ہوتی۔
بہرحال کبھی کبھی کچھ نہ کچھ ریلیف پیکجز تو وفاق کی طرف سے تو دیئے جاتے ہیں مگر بلوچستان کے سیاسی مسائل کو حل کئے بغیر کیا مستقبل میں شورش کو ختم کیا جاسکتا ہے چونکہ طاقت کے ذریعے تو کوئی بھی اپنی بات نہیں منواسکتا ،دنیا میں بڑی جنگیں اس کی مثال ہیں ،طویل جنگوں کے بعد بھی آخر میں مسئلہ میز پر آکر ہی حل ہوا ۔
اب وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کیا روڈ میپ دیتی ہے اور بات چیت کیلئے کیا اقدامات اٹھاتی ہے جس سے مذاکرات کا دروازے کھل سکیں۔
چونکہ پہل ریاست کو ہی کرنا ہوتا ہے تاکہ جو گلے شکوے موجود ہیں انہیں ختم کیا جائے۔ اب دیکھتے ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی بھی مذاکرات کی بات کر تے ہیں جبکہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے بھی گلے لگانے کی بات کی جاتی ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے مگر روڈ میپ اور اس کا راستہ نکالنے کیلئے بلوچستان کے اندر سے ہی سیاسی ،قبائلی سمیت دیگر آپشنز کو استعمال کیا جائے جو شاید بار آور ہوسکیں کیونکہ امن کے ذریعے ہی ترقی اور خوشحالی آئے گی۔