ملکی معیشت کی بہتری، توانائی سمیت دیگر مسائل کا حل حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا ضروری ہے۔
موجودہ حکومت کے پاس چار سال کی مدت ہے اس دوران بہترین معاشی پالیسی اور کرپشن کے خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہونگے مگر ساتھ ہی عوام کو موجودہ معاشی مسائل سے نکالنے کیلئے ریلیف بھی فراہم کرنا ہوگا۔ ٹیکسز لگانے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ایک بار پھر مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے ۔
بازاروں میں اشیاء خورد و نوش، غذائی اجناس سمیت ہر چیز کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے من مانی قیمتوں کے ذریعے بھی مافیاز عوام کا استحصال کررہے ہیں جس کے تدارک کیلئے بھی حکومت نے ہی ایکشن لینا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وقت کو برباد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، کسی نے سستی سے کام لیا توبرداشت نہیں کروں گا کمر کس لیں، پاکستان کے مسائل کو حل کرنا ہے، اپنے ٹائم کو برباد کرنے کی اجازت نہیں دوں گا، فیصلوں پر عملدرآمداور نفاذ کرنا ہوگا، سب نے ٹارگٹ پورے کرنے ہیں، آئی ایم ایف سے نجات کا ہدف صرف باتوں سے پورا نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے دن رات کام کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ10 لاکھ ٹیوب ویل تیل پر چل رہے ہیں، ملک میں ساڑھے 3 ارب ڈالر کا تیل استعمال ہوتا ہے، ہم نے بلوچستان میں 28 ہزار ٹیوب ویلز کی سولرائزیشن کا فیصلہ کیا ہے، ہمیں سورج کی روشی سے فائدہ لینا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں بجلی چوری ہوتی ہے وہاں لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، ہم نے کل 50 ارب روپے ترقیاتی بجٹ سے کٹ لگا کر 200 یونٹ والوں کو 3 مہینے کیلیے ریلیف دیا۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ کراچی پورٹ پر 1200 ارب کی چوری ہورہی ہے، پی این ایس سی کے 12جہاز ہیں اور 5 ارب روپے کی تنخواہیں ہیں جب کہ 5 ارب ڈالر فریٹ چارجز ادا کرتے ہیں، کسی کو پرواہ نہیں،کیا ہمیں اور جہاز نہیں لینے چاہییں؟ یہ پیسہ بچے گا تو دیگر منصوبوں پر لگے گا۔وزیراعظم نے کابینہ کو بتایا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس اور تاجکستان کے دورے میں دیگر ممالک کے سربراہان سے اچھی بات چیت ہوئی، روسی حکام سے بھی سرمایہ کاری پر جامع گفتگو ہوئی، زراعت اور پیٹرولیم فیلڈ میں نئی ٹیکنالوجی لانی ہے۔
بہرحال وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی وارننگ نتائج سے مشروط ہے اسے محض بیان تک محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ عملی طور پر یہ تمام کام زمین پر ہوتا دکھائی بھی دینا چاہئے جب تک حکومتی ذمہ داران ذاتی حیثیت سے موجودہ مسائل کے حل میں دلچسپی نہیں لینگے مسائل حل نہیں ہونگے ۔
دہائیوں سے ملکی معیشت مستحکم نہیں ہوپارہا، ہر تین چار سال بعد آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے قرض لے کر ملکی معیشت چلانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر قرض ہیں کہ بڑھتے جاتے ہیں لیکن معیشت بہتر نہیں ہوتی ،قومی خزانے پر بوجھ بڑھتاجاتا ہے جس کے بعد بحرانات پیدا ہوتے ہیں اور ٹیکسز سمیت معیشت کے متعلق سخت فیصلوں سے عوام پر بوجھ آتا ہے ۔
اب امید واریس یہی ہے کہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف وارننگ کے ساتھ کابینہ اراکین سے نتائج کی برآمدگی کیلئے متحرک ہونگے تاکہ ملک معاشی مسائل سے نجات حاصل کرسکے اورہر شعبہ ترقی کی جانب گامزن ہو سکے۔