سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں نمبر گیم انتہائی دلچسپ صورتحال اختیار کر گئی۔
مخصوص نشستیں ملنے کے بعد پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بننے کا امکان ہے۔
23 مخصوص نشستیں ملنے کے بعد پی ٹی آئی ارکان کی قومی اسمبلی میں تعداد 109 ہونے کا امکان ہے لیکن پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کے باوجود مسلم لیگ ن کے حکمران اتحاد کو برتری حاصل رہے گی۔
مسلم لیگ ن کا حکمران اتحاد 209 ارکان کے ساتھ ایوان میں سادہ اکثریت رکھتا ہے لیکن مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملنے کے بعد اپوزیشن اتحاد 120 ارکان پر مشتمل ہونے کا امکان ہے۔
اس وقت قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی سمیت مجموعی اپوزیشن 97 ارکان پر مشتمل ہے، پی ٹی آئی کے اس وقت 86 ارکان قومی اسمبلی ایوان میں موجود ہیں، پی ٹی آئی کے سنی اتحاد کونسل میں 84 جبکہ دو آزاد امیدوار بیرسٹر گوہر اور عمر ایوب ہیں۔اپوزیشن اتحاد میں جے یو آئی ف 8، بی این پی مینگل ایک، ایم ڈبلیو ایم ایک، پی کے میپ کی ایک نشست ہے، پی ٹی آئی کو تمام مخصوص نشستیں ملیں تو پی ٹی آئی کی کل تعداد 109 ہو سکتی ہے جبکہ اپوزیشن اتحاد 120 ارکان پر مشتمل ہو جائیگا۔6دیگر آزاد امیدوار قومی اسمبلی میں آزاد حیثیت میں موجود ہیں۔قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کی تعداد 209 ہے جس میں مسلم لیگ ن کے ارکان کی تعداد 108 اور پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 68 ہے۔
اس کے علاوہ ایم کیو ایم 21 ارکان بھی حکومتی اتحاد میں شامل ہیں جبکہ ایک اقلیتی نشست معطل ہے۔قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ کی پانچ، آئی پی پی کی چار نشستیں ہیں، مسلم لیگ ضیا ء کی ایک، بلوچستان عوامی پارٹی کی ایک اور نیشنل پارٹی کی بھی ایک نشست ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن ذرائع کی جانب سے مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کسی فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی جبکہ ان 41 ارکان کو آزاد امیدوار ڈیکلیرکرنے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن کمیشن نے کبھی نہیں کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں ہے۔
پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے جس کا نام سیاسی جماعتوں کی فہرست میں شامل ہے، پی ٹی آئی کا نام بطور سیاسی جماعت الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق کمیشن نے کسی فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن کو درست قرار نہیں دیا۔
انٹرا پارٹی الیکشن پر پی ٹی آئی مختلف فورمز پر گئی تاہم الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔
ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات درست نہ ہونے پر بلے کا نشان واپس لیا گیا۔
الیکشن کمیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ آج کے فیصلے میں 39 ارکان کو پی ٹی آئی کا ایم این اے قرار دیا گیا ہے، ان 39 ارکان نے اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی سے اپنی وابستگی ظاہر کی تھی۔ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق کسی بھی پارٹی کا امیدوار ہونے کے لیے پارٹی ٹکٹ اور ڈیکلریشن آر اوکے پاس جمع کروانا ضروری ہے، ان امیدواروں نے آر او کو پارٹی ٹکٹ اور ڈیکلریشن جمع نہیں کروایا تھا۔
ذرائع الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ریٹرننگ آفیسروں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا وہ ان کو پی ٹی آئی کا امیدوار ڈیکلیر کرتے۔
جن 41 امیدواروں کو آزاد ڈیکلیرکیا گیا انہوں نے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی کا ذکر نہیں کیا، ان 41 ارکان نے نہ پارٹی وابستگی ظاہر کی نہ ہی پارٹی ٹکٹ جمع کروایا۔
ذرائع الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ریٹرننگ افسروں نے ان 41 ارکان کو آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی، الیکشن جیتنے کے بعد 3 دن کے اندر ان ایم این ایز نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔
ان 41 ارکان کو آزاد امیدوار ڈیکلیرکرنے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل اپیل میں گئی، سنی اتحاد کونسل کی یہ اپیل مسترد کردی گئی۔
پی ٹی آئی نہ تو الیکشن کمیشن میں فریق تھی نہ ہی پشاور ہائیکورٹ کے سامنے فریق تھی، پی ٹی آئی سپریم کورٹ میں بھی فریق نہیں تھی۔
ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔
بہرحال موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر پی ٹی آئی مزید مضبوط اپوزیشن کے طور پر ابھر کر سامنے آرہی ہے ۔
حکومت اور اتحادیوں کیلئے سپریم کورٹ کا فیصلہ بڑا دھچکا ہے، اب حکومتی جماعتیں اور الیکشن کمیشن مزید قانونی چارہ جوئی کریں گی یا نہیں یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا مگر مرکز میں حکومت کیلئے چیلنجز بڑھنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔