پاکستان نے آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر قرض کی وصولی کے لیے بھاری ٹیکس وصولیوں کا پلان تیار کر لیا۔
پاکستان نے آئی ایم ایف کو تین سال میں ٹیکس ریونیو میں 3724 ارب روپے اضافے کی یقین دہانی کروا دی۔
وزارت خزانہ کی دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال ٹیکس ریونیو میں 1.25 فیصد اضافے کا پلان ہے، زرعی شعبے سے حاصل آمدنی کو ٹیکس نیٹ میں لانا بھی شرائط میں شامل ہے۔
دستاویزات کے مطابق ری ٹیلرز اور برآمد کنندگان بھی اضافی ٹیکسوں کی زد میں آئیں گے جبکہ نان فائلرز کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا اور تاجروں کی رجسٹریشن کی جائے گی۔
ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے ٹیکس نیٹ میں توسیع کی جائیگی اور مختلف شعبوں کو حاصل چھوٹ، سبسڈیز کا بتدریج خاتمہ پلان میں شامل ہے۔
بجلی اور گیس ٹیرف میں بھی مقررہ شیڈول کے مطابق اضافہ کیا جائے گا اور آئی ایم ایف کو ٹیکس ریونیو کی وصولی کو آسان بنانے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت آئی ایم ایف پاکستان کو 37 ماہ میں 7 ارب ڈالر قرض فراہم کرے گا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے تمام معاہدے حکومت کو لازمی پورے کرنے ہیں کیونکہ ملکی معیشت کو چلانے کیلئے رقم درکار ہے ۔
ہمارے ہاں 70 سال سے زائدکا عرصہ گزرجانے کے باوجود معیشت اور سیاست دونوں ہی سنبھل نہیںپائے ہیں ۔
ایک طرف طویل سیاسی انتقامی اقتدار کی رسہ کشی کی جنگ، طویل آمرانہ دور، اداروں کے اندر کرپشن، اسمبلی اراکین، اداروں کے سربراہان، بیورو کریسی، آفیسران کے پروٹوکول کی مد میں بڑے پیمانے پر رقم کا خرچ کیا جانا پھر کیسے ملکی معیشت بہتر ہوسکتی ہے جہاں حکومتوں کی مدت کا خود حکومتی نمائندگان تک کو علم نہیں کہ کب تک ان کے پاس اقتدار کی کرسی موجود ہے۔
بہرحال آئی ایم ایف کے شرائط اور ہمارے یہاں نظام نے آج ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے عوام کا تو مہنگائی سے برا حال ہوچکا ہے، آج کا نوجوان مستقبل کیلئے بیرونی ممالک جانے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ہماری معاشی و سیاسی سمت اب تک صحیح معنوں میں ٹریک پر نہیں آئی ہے جس کی ذمہ داری سب کو لینی ہوگی۔
بہرحال ملک میں معاشی و سیاسی حالات بہتر ہوسکتے ہیں اگر اصل خامیوں کو دور کرکے سب مشترکہ طور پر ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کے لیے ایک پیج پر آجائیں جہاں اقتدار پر ریاست کو فوقیت دینی ہوگی۔