|

وقتِ اشاعت :   July 14 – 2024

بلوچستان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ لاپتہ افراد کا ہے اس بات کو حکومتوں اور تمام سیاسی جماعتوں سمیت ہر مکتبہ فکر تسلیم کرتی ہے مگر اب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا ہے۔

ہر نئی حکومت نے لاپتہ افراد سمیت سیاسی مسائل کے حل کیلئے کمیٹیاں تشکیل دیں مگر کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

ہر بار یہ مسئلہ سر اٹھاتا ہے اور لاپتہ افراد کے لواحقین سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔

وہ سلام آباد تک لانگ مارچ اور بھوک ہڑتال کے ذریعے اپنا احتجاج ریکارڈ کراچکے ہیں مگر مسئلہ حل ہونے کے بجائے اس میں شدت آتی جارہی ہے ۔

لاپتہ افراد کی اصل تعداد کیا ہے اس حوالے سے حکومتی موقف اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے تحریک چلانے والی تنظیم کی پیش کردہ تعداد میں فرق ہے مگر بنیادی مسئلہ اس کا حل ہے کہ کس طرح سے بلوچستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کیا جائے ،یہ مسئلہ چند دنوں میں تو حل نہیں ہوگا البتہ اس کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھنا ہوگا۔

23 اپریل 2025کو وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا دیگر وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ لوگوں کی گمشدگیوں کو اب بڑا مسئلہ بنادیا گیا ہے جبکہ لاپتہ کرنے والوں کا تعین کرنا بہت مشکل ہے۔

بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال سے متعلق وزیر داخلہ کو پلان تشکیل دینے کا ٹاسک سونپا ہے جبکہ امن و امان میں بہتری کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے جارہے ہیں جس پر اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ نے کہاتھا کہ بلوچستان مسئلے پر خصوصی کمیٹی تمام پہلوئوں کو دیکھ کر پالیسی مرتب کریگی ، ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ مذاکرات سے حل ہو تو بہتر ہے۔

مسنگ پرسنز کو ایک بہت بڑا مسئلہ بنادیا گیا ہے جبکہ 80 فیصد لاپتہ افراد کے مسائل حل ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو کون لاپتہ کررہا ہے اس کا تعین کرنا بہت مشکل ہے جبکہ لاپتہ افراد سے متعلق اداروں پر الزام لگانا بھی درست نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ را کی معاونت سے چلنے والے گروپوں نے کئی بے گناہ افراد کو قتل کیا ہے جبکہ افغانستان سے بھی علیحدگی پسند دہشت گردوں کی معاونت کی جارہی ہے۔

بہرحال حکومت کی جانب سے اپنا موقف پیش کیا جاتا ہے اور لاپتہ افراد کی تنظیم کا اپنا موقف ہے۔

حکومتی موقف تسلیم مگر لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے آئے روز کااحتجاج بے سبب تو نہیں ہوسکتا، کوئی یوں ہی پولیس کے ڈنڈے کھانے اور آنسو گیس کے شیل سہنے نہیں نکل پڑتا ۔ بہرحال وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی جانب سے خصوصی ٹیم اب تک تشکیل نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی اجلاس طلب کیا گیا ہے اس معاملے کو اب سنجیدگی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہے تاکہ مسئلہ افہام و تفہیم سے حل ہوسکے ۔کوئٹہ میں حالیہ دنوں حالات کشیدہ رہے اور یہ سلسلہ وقتًافوقتًا چلتا رہتا ہے جس میں شدت بھی آتی ہے مگر مسئلے کا حل بات چیت سے ہی نکلے گا اور لاپتہ افراد کی اصل تعداد سامنے لانے کی ضرورت ہے پھر بازیابی کے حوالے سے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیںتاکہ بلوچستان کا یہ دیرینہ مسئلہ حل ہوسکے۔