کوئٹہ: سابق نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہاہے کہ دنیا میں جہاں احتجاج ہوتاہے ان کو مظاہرے کا حق جبکہ طاقت کا استعمال قانون نافذ کرنے والوں کا حق ہے تاکہ امن و امان بحال کیا جا سکے
بلوچ قومیت میں دو جہتیں ہیں ایک میرغوث بخش بزنجو اورسردارعطاء اللہ مینگل جو سیاسی جدوجہد کے حامی ہے دوسرا مسلح علیحدگی پسند جن کے سرخیل نواب خیر بخش مری ہیں ،
ماہ رنگ بلوچ کو جب اسلام آباد پریس کلب کے باہر سوا ماہ احتجاج کرنے دیا گیا وہ کسی نے نہیں سراہا،٫
مگر رات ڈیڑھ بجے جب وہ مین ہائی وے پر رکاوٹ پیدا کرنا شروع ہوئے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے راستہ تو کلیئر کرنا تھا اور اس پر تنقید شروع ہوگئی
ماہ رنگ بلوچ پر کوئی ایسا تشدد نہیں ہوا جس سے جان جانے کا اندیشہ ہو، صرف پانی پھینکا گیا تو کیا اسے غزہ سے ملانا درست ہوگا، جہاں 9 ہزار بچے شہید ہوئے،
40 ہزار عام افراد شہید ہوئے اور صہیونی ریاست کی بربریت ساری دنیا نے دیکھی۔ان خیالات کااظہار انہوں نے غیر ملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ بلوچ قومیت پرستی کی دو جہتیں ہیں۔ ایک سوچ یہ سمجھتی ہے کہ بلوچوں کی شناخت کی بنیاد پر سیاسی اور معاشی حقوق کے حصول کے لیے جمہوری جدوجہد ہونی چاہیے۔
اس میں قائدانہ کردار میر غوث بخش بزنجو تھے پھر ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے حاصل بزنجو ہیں، جبکہ ڈاکٹر مالک اور یہ ایک پورا گروہ ہے،
ساتھ میں سردار عطااللہ مینگل بھی سیاسی جدوجہد کے حامی ہیںسابق نگراں وزیراعظم نے کہاکہ دوسری سوچ مسلح علیحدگی پسندوں کی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ بلوچوں کے حقوق جمہوری سیاسی جدوجہد سے حاصل نہیں ہوسکتے۔
نواب خیر بخش مری اس کے سرخیل تھے، جن کو شدت پسند احترام سے دیکھتے اور اپنا سربراہ سمجھتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ جب 70 کی دہائی میں نواب خیر بخش مری حیدرآباد سازش کیس سے بری ہوئے تو وہ افغانستان چلے گئے، جبکہ میر غوث بخش بزنجو نے پاکستان نیشنل پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت بنا لی۔
انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ نواب خیر بخش مری نے افغانستان سے واپسی پر حقوق کی آواز کے نام سے تحریک شروع کی اور مسلح جدوجہد کے فلسفے کے تحت لوگوں کو اکٹھا کیا۔
انہوں نے کہاکہ سال 2000 میں جب ہائیکورٹ کے جج کے قتل کے الزام میں ان کی گرفتاری ہوئی تو پھر نواب اکبر بگٹی بھی ان کے قریب آگئے اور تحریک میں تیزی آگئی۔
اب 70 کی دہائی سے فرق یہ تھا کہ اس مرتبہ مری قبیلہ اکیلا نہیں تھا بلکہ وہ ماسٹر ٹرینر کے طور پر صوبے بھر میں لوگوں کو بلوچ خاتون رہنما ماہ رنگ بلوچ پر گزشتہ سال اسلام آباد میں مظاہرے کے دوران لاٹھی چارج اور پانی پھینکنے کے مناظر پر سوال کا جواب دیتے ہوئے انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ کراچی، لاہور، اسلام آباد میں بیٹھے لوگوں کے ذہنوں میں وہ مناظر نہیں کہ جب تفتان سے کوئٹہ سفر کے دوران بس میں سے لوگوں کو نکال کر شناختی کارڈ طلب کرتے ہوئے موقع پر قتل کردیا جاتا ہے، اور ایسا کرنے والے بی ایل اے اور بی ایل ایف کے دہشتگرد ہوتے ہیں۔
انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ اسی طرح پولیس اور سیکیورٹی اداروں پر صحرائوں میں جو حملے ہوتے ہیں وہ منظر کوئی نہیں دیکھتا۔
کوسٹل ہائی وے پر قانون نافذ کرنے والے 14 لوگوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے وہ منظر بھی کوئی نہیں دیکھ سکتا۔
یہ مناظر پاکستانی میڈیا کو دکھانا میری ذمہ داری نہیں تھی مگر وہ مناظر سامنے نہیں آئے۔انہوں نے اپنے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہاکہ واٹر کینن تو فرانس اور برطانیہ میں بھی استعمال ہوتے ہیں مگر ان احتجاج کرنے والوں کے ساتھ مین اسٹریم کو ہمدردی پیدا نہیں ہوتی کیونکہ وہاں مظاہرے کرنے کا حق مظاہرین کا ہے مگر طاقت کا استعمال قانون نافذ کرنے والوں کا حق ہے تاکہ امن و امان بحال کیا جا سکے۔
انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ ماہ رنگ بلوچ کو جب اسلام آباد پریس کلب کے باہر سوا ماہ احتجاج کرنے دیا گیا وہ کسی نے نہیں سراہا، مگر رات ڈیڑھ بجے جب وہ مین ہائی وے پر رکاوٹ پیدا کرنا شروع ہوئے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے راستہ تو کلیئر کرنا تھا اور اس پر تنقید شروع ہوگئی۔
انہوں نے کہاکہ ماہ رنگ بلوچ پر کوئی ایسا تشدد نہیں ہوا جس سے جان جانے کا اندیشہ ہو، صرف پانی پھینکا گیا تو کیا اسے غزہ سے ملانا درست ہوگا، جہاں 9 ہزار بچے شہید ہوئے، 40 ہزار عام افراد شہید ہوئے اور صہیونی ریاست کی بربریت ساری دنیا نے دیکھی۔
اس حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ مزاکرات کرنا یا طاقت کا استعمال ریاست کے دو طریقے ہیں۔ پہلے تو نتائج پر بات ہونی چاہیے کہ مطلوبہ نتائج کیا ہیں؟انہوں نے کہاکہ کیا ریاست میں فری موومنٹ ہونی چاہیے جس کے تحت معاشی اور تجارتی سرگرمی ہونی چاہیے یا نہیں ہو نی چاہیے۔ جب ان دو سوالوں کا جواب مل جائے گا تو پھر ریاست فیصلہ کرے کہ کرنا کیا ہے۔
اب اگر کوئی گروہ بڑے بڑے مظاہرے کررہا ہو، احتجاج کے ذریعے مطالبات سامنے رکھ رہا ہو تو ان سے ریاست کو مذاکرات کرنے چاہییں کیونکہ وہ پرامن جدوجہد کرکے بات سامنے لا رہے ہیں۔ مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ 20 سے 25 لوگوں کے گروہ نکل کر لوگوں پر حملے کررہے ہیں اور سرکاری تنصیبات کو تباہ کررہے ہیں
جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اب ایسے میں کس سے مذاکرات کیے جائیں۔ مذاکرات کے لیے دوسری سائید کا راضی ہونا بھی ضروری ہے۔
انہوں نے کہاکہ بی ایل ایف کے سربراہ اللہ نظر نے ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں مگر آپ نو آبادیاتی پاور ہیں اور ہماری سرزمین پر قبضہ کیا ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کو بلائیں اور یہاں سے جانے کا وقت اور تاریخ دیں تو بات کریں گے۔انہوں نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہاکہ یقینا اتنی سادہ صورتحال نہیں ہے، دنیا میں کسی سینٹرل اتھارٹی نے علیحدگی پسندوں کے سامنے سرنڈر نہیں کیا، چاہے وہ یورپ ہو یا کوئی اور براعظم، تو پھر پاکستان میں کون سی انوکھی بات ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ پرامن لوگوں پر تشدد نہیں ہونا چاہیے، بات چیت سے ہی مسائل کا حل نکالنا چاہیے مگر جب لوگ پرتشدد ہو جائیں تو پھر بات کس سے ہوگی۔
عمران خان کے حوالے سے سوال ہر انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ مقبول لیڈر دنیا بھر میں انتخابی بادشاہت قائم کرتے ہیں۔ حکومتوں کو سروس ڈیلیوری کرنی ہوتی ہے۔
سماجی خدمات، سیکیورٹی اور معاشی بہتری ہونی چاہیے اور اسی پر حکومتوں کو دیکھا جانا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ ہمارے ہاں کارکردگی کے بجائے سیاسی خواب بیچے جاتے ہیں۔
موجودہ تنازع میں اسٹیبلمنٹ پیچھے ہٹے گی یا عمران خان؟ اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ تیسرا فریق موجودہ حکومت ہے اس کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اس سوال پر کہ محسن نقوی کیسے وزیر داخلہ بنے؟ ان کا کہنا تھا کہ اس میں بھی موجودہ حکومت اور نظام کی مرضی شامل تھی ورنہ وہ بالکل وزیر داخلہ نہ بنتے۔
وہ کسی جماعت کا حصہ نہیں مگر ان کی قربت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ محسن نقوی کی پیپلزپارٹی کی قیادت سے قربت بھی واضح ہے۔